مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2875
سود خوروں کمی حقیق عزت حاصل نہیں ہوتی
ایک دنیادار انسان مال و دولت کے انبار اسی لئے جمع کرتا ہے کہ اسے دنیا کا اطمیان سکون اور راحت حاصل ہو اور وہ سماج و معاشرہ میں عزت ووقار کی زندگی بسر کرسکے لیکن سود خوروں کی راحت کا حال تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں ظاہری طور پر مال و دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت اور راحت و آرام کے تمام تر اسباب کی موجودگی کے باوجود ان بدنصیبوں کو حقیقی راحت و اطمینان کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور سکون قلب و دماغ جیسی اعلی نعمت میں مسلسل مبتلا رہنے کی وجہ سے طبعی طور پر بھی بےرحم اور سنگ دل بن جاتا ہے اور اس کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت زدہ اور افلاس کے مارے لوگوں کی مصیبت ومفلسی سے اور کم مایہ انسانوں کی کم مائیگی سے فائدہ اٹھائے اور ان کا خون چوس کر اپنے بدن کو سیم وزر سے پالے اس مقصد کے لئے وہ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کے ہاتھ سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا چھیننے اور افلاس زدہ کی ستائی ہوئی باحیا عورت کے جسم پر لپٹے ہوئے کپڑے کا آخری چیتھڑا اتار لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اس شقاوت اور سنگ دلی کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں سود خور کی عزت اور وقار کے لئے کوئی گوشہ ہو آپ اپنی آبادی کے کسی بھی بڑے سے بڑے سود خور پر نظر ڈالئے اس کی تجوریاں سونے چاندی اور روپیوں کے کتنے ہی بڑے ذخیروں سے بھری پڑی ہوں اس کے گھر میں مال و دولت کے کتنے ہی خزانے محفوظ ہوں لیکن کیا لوگوں کی نظروں میں اس کی ادنیٰ بھی وقعت ہوتی ہے بےکس و مجبور لوگ بھلے ہی اپنی ضرورت و احتیاج کی بناء پر اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں مگر ان کے دلوں میں بھی اس کے لئے عزت و احترام کا کوئی ادنیٰ سا جذبہ نہیں ہوتا معاشرہ میں اس کی حیثیت اس درندے کے برابر نہیں ہوتی جو اپنے پنجوں سے انسانوں کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ کر انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کردیتا ہے اس کا تنیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے ہر طبقہ میں اس انسانی شرف و احترام سے بھی محروم رہتا ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے سامنے عزت ووقار کا پیکر بنا کر پیش کرتا ہے۔
Top