مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2874
سود خوروں کی ظاہری خوشحالی سے دھوکہ نہ کھائیے :
آج کل سود کا کاروبار عام ہے چپہ چپہ پر سود خوروں کا لین دین جاری ہے ان کے یہاں ظاہری طور پر مال و دولت کی ریل پیل نظر آتی ہے اسباب عیش و عشرت کی فراوانی ہر طرف رقصاں دیکھی جاتی ہے اسی لئے عام سطح میں لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ آج کل تو سود خوروں کو بڑی سے بڑی راحت حاصل ہے وہ کوٹھیوں بنگلوں اور عالیشان عمارتوں کے مالک ہیں نوکر چاکر اور شان و شوکت کے تمام سامان موجود ہیں اس لئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ سود خوروں کو دنیا میں بھی راحت حاصل نہیں ہوتی اور ان کا مال وزر ان کا ساتھ نہیں دیتا حالانکہ غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو آپ کارخانوں اور فیکٹریوں اور بازاروں سے حاصل کرسکتے ہیں وہ سونے چاندی اور سکون کے عوض مل سکتا ہے لیکن جس چیز کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے اور نہ کسی بازار سے دستیاب ہوتی ہے بلکہ وہ ایک ایسے روحانی اطمینان اور قلب و دماغ کے ایسے سکون کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صورت میں براہ راست انسان کو عطا ہوتا ہے جو بعض اوقات بالکل بےسروسامان انسان اور جانوروں تک کو میسر آجاتا ہے اور بعض اوقات ہزاروں اسباب عیش و عشرت اور سامان راحت رکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتا ایک نیند کو لے لیجئے یہ نیند کیا ہے ایک راحت و سکون کا نام ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ ایک اعلی قسم کی خواب گاہ بنوا لیں جس میں ہوا روشنی کا پورا انتظام ہو عمدہ قسم کے اور آرام دہ پلنگ ہوں دلفریب ودل کش گدیلے بستر اور ملائم تکیے ہوں لیکن آپ خود بتائیے کیا ان سامانوں کے مہیا ہوجانے پر نیند کا آجانا لازمی ہے اگر آپ کو خود اس کا تجربہ نہیں ہے تو وہ ہزاروں آدمی اس کا جواب نفی میں دیں گے جنہیں کسی عارضے کی وجہ سے نیند نہیں آتی ان کے لئے یہ سامان دھرے رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ خواب آور دوائیاں بھی جواب دے دیتی ہیں چناچہ نیند کے سامان تو بازار سے آگئے لیکن نیند کسی بازار سے کسی بھی قیمت پر نہیں لائی جاسکتی اسی طرح دوسری لذتوں اور راحتوں کا حال ہے ان کے اسباب تو روپیہ پیسہ کے ذریعے حاصل ہوسکتے ہیں مگر ان راحتوں اور لذتوں کا حاصل ہونا ان اسباب کے باوجود بھی ضروری نہیں ہے یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر راحت اور اطمینان کا نام نہ پائیں گے وہ اپنی حرص وہوس میں اپنی تجوریوں کو بھرنے اور اپنے ایک کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آتے ہیں کہ نہ ان کو اپنے کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے نہ اپنی بیوی بچوں کا خیال ایمانداری سے بتائیے کیا اطمینان و راحت اسی طرح حاصل ہوتا ہے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مال و دولت کو بڑھانے کی ادھیڑ بن میں اپنے آپ کو فنا کردینے کا نام راحت ہے؟ کتنے بیوقوف ہیں وہ لوگ جنہوں نے اسباب راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے اور جو حقیقی راحت ہے اس سے کوسوں دور ہیں۔
Top