مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6325
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أي الخلق أعجب إليكم إيمانا ؟ قالوا : فالنبيون قال : ومالهم لا يؤمنون والوحي ينزل عليهم ؟ قالوا : فنحن . قال : ومالكم لا تؤمنون وأنا بين أظهركم ؟ قال : فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن أعجب الخلق إلي إيمانا لقوم يكونون من بعدي يجدون صحفا فيها كتاب يؤمنون بما فيها
ایمان بالغیب کے اعتبار سے تابعین کی فضیلت
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک دن صحابہ سے) پو چھا! بتاؤ، ایمان کے اعتبار سے تم مخلوق میں کس کو زیادہ پسند کرتے ہو، یعنی اللہ کی مخلوقات میں کس مخلوق کے ایمان کو تم بہت قوی اور بہت اچھا سمجھتے ہو؟ بعض صحابہ نے جواب دیا، ہم تو فرشتوں کے ایمان کو بہت اچھا اور قوی سمجھتے ہیں! آنحضرت ﷺ نے فرمایا فرشتوں کے ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے۔ وہ تو اپنے پروردگار کے پاس ہی رہتے ہیں یعنی فرشتے مقرب بارگاہ الٰہی ہیں اور عالم جبروت کے عجائب وغرائب کا ہمہ وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اگر ان کا ایمان قوی ہے تو اس میں کیا عجیب و غریب بات ہے۔ انہی صحابہ نے یا دوسرے بعض صحابہ نے عرض کیا! تو پھر وہ پیغمبر ہیں کہ ہمارے نزدیک ان کا ایمان بہت اچھا ہے اور قوی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بھلا وہ شک و شبہ سے دور اور قوی ایمان کے حامل کیوں نہیں ہوں گے، آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے، اب صحابہ نے کہا! تو پھر ہم لوگ ہیں ( جو آپ ﷺ کے صحابہ ہیں، لہذا کہنا چاہئے کہ ہمارا ایمان اچھا اور قوی ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے ہی ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان کے اعتبار سے تمام مخلوق میں بڑے اچھے لوگ وہ ہیں جو میرے ( زمانہ حیات) کے بعد پیدا ہوں گے ( یعنی تابعین اور ان کی اتباع کرنے والے کہ جو نسل در نسل قیامت تک اس درمیان میں آتے رہیں گے وہ لوگ احکام دین کے مجموعہ مصحف یعنی قرآن پاک پائیں گے اور اس میں جو کچھ مذکور ہے سب پر ایمان لائیں گے۔

تشریح
جواب دینے والے صحابہ نے بہت اچھے اور بہت قوی ایمان کے اعتبار سے جو پہلے فرشتے کا ذکر کیا اور پھر انبیاء پر فرشتوں کی فضیلت لازم نہیں آتی۔ اللہ کے ہاں کثرت ثواب کے اعتبار سے جو فضیلت انبیاء کو حاصل ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس میں شک وشبہ نہیں۔ آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے۔۔۔ یعنی انبیاء کرام (علیہم السلام) کو تو ایمان کا اور سب سے اچھا اور سب سے قوی ایمان کا حامل ہونا ہی چاہئے۔ کیونکہ اس دنیا میں ایمان اور دین وشر یعت کے اتر نے کا اصل ذریعہ وحی ہے اور وحی انبیاء ہی پر اترتی ہے فرشتہ روح الامین ( جبرائیل) آسمان سے آتا ہے اور حق تعالیٰ کا پیغام براہ راست ان کو پہنچاتا ہے۔ وہ فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان کے انوار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ لغت میں وحی کے معنی ہیں، پیغام، دل میں پو شیدہ بات ڈالنا ہر وہ چیز جو دوسرے کو معلوم ہونے کے لئے تم پیش کرو اور آواز اور اصطلاح شرع میں وحی اللہ کے اس پیغام کو کہتے ہیں جو جبرائیل امین (علیہ السلام) پیغمبروں کے پاس لائیں۔ جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔۔۔ اور تم وحی اور ایمان کے آ ثار و انوار کا مشاہدہ کرتے ہو، نبوت کی نشانیاں اور معجزے دیکھتے ہو، میرے جمال باکمال سے انوار حق کا دیدار کرتے ہو، میری صحبت وہم نشینی کے ذر یعہ تم میں اسرار حقیقت سرایت کرتے ہیں اور میرے باطنی تصرف اور میرے ارشاد و اقوال سے تمہارے ظاہر و باطن میں کمالات و کرامات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ پر ایمان لا نے، اللہ کے اتارے ہوئے دین و شریعت کے احکام میں یقین رکھنے اور اللہ کے بتائے ہوئے اوا امر و نواہی کو ماننے میں تمہارے لئے شک وتردد کا کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ سب پر ایمان لائیں گے۔۔۔ یعنی ان کا ایمان بالغیب ہوگا، نہ انہوں نے اپنے نبی کو دیکھا ہوگا، نہ نبی کی صحبت کے ذریعہ انوار حق کا مشاہدہ کیا ہوگا اور نہ نبوت کے آ ثار و معجزات کو اپنی نظروں کے سا منے پایا ہوگا۔ وہ اپنے بڑوں (صحابہ) سے اخبار و آثار کی صورت میں جو کچھ سنیں گے اسی پر اعتماد و یقین کر کے اللہ پر، اللہ کے رسول پر، اللہ کی کتاب پر اور اللہ کے اتارے ہوئے دین پر ایمان لائیں گے اور اس ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو یہ فرمایا ہے کہ یو منون بالغیب تو اس کی مراد بھی بعض تفسیری جہات سے یہی ہے اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھیوں نے ان کے سامنے محمد ﷺ کے صحابہ اور ان کے ایمان کا ذکر کیا تو حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا حق تو یہ ہے کہ محمد ﷺ کی حقیقت و حیثیت، ان کی دعوت اسلامی اور ان کا سارا معاملہ ہر اس شخص پر پوری طرح روشن اور واضح تھا جس نے آپ ﷺ کو دیکھا اور آپ ﷺ کی صحبت وہم نشینی کا شرف پایا، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کسی ایمان والے کا ایمان ایمان بالغیب سے افضل نہیں اور پھر حضرت ابن مسعود ؓ نے یہی آیت یو منون بالغیب پڑھی۔ بہر حال آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک سے متصل ہونے کے سبب اور آنحضرت ﷺ کے بابرکت صحابہ کی رفاقت و صحبت پانے کی وجہ سے اگرچہ تابعین پر بھی آثار و انوار حقانیت ہویدا اور آنحضرت ﷺ کا صدق وا ضح تھا لیکن اس کے باوجود یہی کہا جائے گا کہ، ازدیدہ بسے فرق بود تا بشنیدہ۔ اور حاصل یہ کہ اگرچہ صحابہ کا ایمان بھی بالغیب تھا لیکن ان کا ایمان بالغیب انہی چیزوں میں تھا جن پر ایمان لازم فرض ہے، جیسے اللہ کی ذات، ملائکہ اور امور آخرت وغیرہ جب کہ اور بہت سی چیزیں ان کی آنکھوں دیکھی ہوئی تھیں ان کے مشاہدہ میں آئیں۔ ان کے برخلاف تابعین اور ان کے بعد اہل ایمان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا سارا ایمان بالغیب ہے کوئی چیز ان کی آنکھوں دیکھی ہوئی نہیں ہے، کوئی چیز ان کے مشاہدہ میں نہیں آئی پس اس اعتبار سے ان کے ایمان کو افضل اور پسندیدہ تر فرمایا گیا۔
Top