مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6322
وعن معاوية قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : لا يزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك . متفق عليه وذكر حديث أنس إن من عباد الله في كتاب القصاص
یہ امت اللہ کے سچے دین پر قائم رہنے والوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی
اور حضرت معاویہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو اللہ کے حکم پر قائم ہوگا، اس گروہ (کے دینی وجماعتی نظم اور معاملات کو) نہ وہ شخص نقصان پہنچا سکے گا جو اس کی تائید واعانت ترک کرچکا ہو اور نہ وہ شخص ضرر پہنچائے گا جو ( موافقت کی بجائے) اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا ہو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ اپنے اسی راستہ پر یعنی احکام الٰہی اطاعت اور دین کی خدمت واعانت پر قائم ہوں گے۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث ان من عباد اللہ لو اقسم علی اللہ لابرہ کتاب القصاص میں نقل کی جاچکی ہے۔

تشریح
اللہ کے حکم پر قائم ہوگا۔۔۔ یعنی اس گروہ کی اعتقادی اور عملی زندگی پوری عمارت ودینی فرائض اور شرعی احکام پر استوار ہوگی جو کتاب اللہ کو یاد کرنے حدیث کا علم حاصل کرنے کتاب سنت سے استباط کرنے، فی سبیل اللہ جہاد کرنے مخلوق اللہ کی خیر خواہی میں لگے رہنے اور جتنے فرض کفایہ ہیں سب کے تئیں اپنی ذمہ داری نبھا نے سے عبارت ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد اشارہ کرتا ہے ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر و یا مرون بلمعروف وینھون عن المنکر۔ اور تم میں ( ہمیشہ) ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو ( دوسروں کو بھی) خیر کی طرف بلا یا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں۔ بہرحال اس حدیث سے وا ضح ہوا کہ روئے زمین ایسے صلحا اور پاکیزہ نفس لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی جو احکام خداوندی کی پیروی میں ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے دور رہتے ہیں، دین و شریعت پر ہر حالت میں عمل کرتے ہیں اور بہر صورت اسلام کی بقاء وسر بلندی کے لئے سر گرم رہتے ہیں، خواہ مدد و اعانت کرنے والے ان کی مدد و اعانت کریں یا مخالفت پر کمربستہ لوگ ان کی مخالفت و برائی کریں۔ حتی یاتی امر اللہ (یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا) میں (امر اللہ) اللہ کے حکم) سے موت اور انقضائے عہد مراد ہے تاہم شارح نے اس سے قیامت مراد لی ہے لیکن اس قول پر اس حدیث کی رو شنی میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے لا تقوم الساعۃ حتی لا یکون فی الا رض من یقول اللہ (روئے زمین پر جب تک ایک بھی اللہ کا نام لیوا موجود رہے گا قیامت نہیں آئے گی) اسی طرح قائمۃ بامر اللہ ( اللہ کے حکم پر قائم ہوگا) کے معنی ایک شارح نے اللہ کے دین پر سختی سے عمل کرنا لکھے ہیں، نیز بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ گروہ سے مراد اہل علم کی وہ جماعت ہے جو ہر زمانہ میں حدیث کی تعلیم اور دینی علوم کی تدریس وا شاعت کے ذریعہ سنت کی ترویج اور دین کی تجدید و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتی رہے گی اور ایک شارح کہتے ہیں گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اور ہر حالت میں اسلام پر قائم رہیں گے۔ ایک اور شارح لکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہو کہ روئے زمین سے اہل اسلام کی شوکت و عظمت کبھی فنا نہیں ہوگی۔ اگر روئے زمین کے کسی علا قہ اور کسی خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کو ضعف واضمحلال لاحق ہوگا تو کسی دوسرے علاقہ اور خطہ میں اسلام کا بول بالا اور مسلمانوں کو شوکت و عظمت حاصل رہے گی جو اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلام کا پرچم سر بلند کرنے میں مستعدی سے لگے ہوں گے اور اکثر اقوال کا خلاصہ یہ کہ گروہ سے مراد غازیان اسلام کی جماعت ہے جس کا کام دشمنان دین اسلام سے جہاد کر کے دین کو مضبوط و سر بلند کرنا ہے اور پھر یہی جماعت آخر زمانہ میں اسلامی سرحدوں کی حفا ظت و نگہبانی کرے گی، بعض روایتوں میں وھم بالشام کے الفاظ بھی آئے ہیں یعنی اس گروہ کا مستقر ملک شام ہوگا اور بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں حتی یقاتل اخر ھم مسیح الدجال ( یہاں تک کہ اس گروہ کے آخری افراد جال کو قتل کریں گے) گو یا یہ روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ گروہ سے مراد غازیان اسلام ہی کی جماعت ہے لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ عمومی طور پر ہر وہ جماعت اور ہر وہ طبقہ مراد ہے جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہو اور اللہ دین کی خدمت و اشاعت میں اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہو۔
Top