مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6321
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن من أشد أمتي لي حبا ناسا يكونون بعدي يود أحدهم لو رآني بأهله وماله . رواه مسلم
بعد کے زمانہ کے اہل ایمان کی فضیلت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت تو یہ ہے کہ میری امت میں مجھ سے نہایت شدید اور نہایت اچھی محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد پیدا ہوں گے ان میں کوئی تو یہ آ رزو کرے گا کہ کاش وہ مجھ کو دیکھ لے اپنے اہل و عیال اور اپنا مال وا ثاثہ سب کچھ مجھ پر قربان کر دے۔ (مسلم)

تشریح
یعنی میرے تئیں شدت محبت اس کو اس آرزو میں مبتلا رکھے گی کہ اگر میری زیارت اور میرے دیدار کا موقع اس کو نصیب ہوجائے تو وہ مجھ تک پہنچے اور اپنے اہل و عیال، اپنا گھر بار اپنا مال و اثاثہ سب کچھ مجھ پر فدا کر دے، واضح ہو کہ اس حدیث سے اور اس جیسی دوسری حدیثوں سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد ہوسکتا ہے کہ بعضے لوگ ایسے اس امت میں پیدا ہوں جو فضیلت میں صحابہ کرام کے برابر ہوں یا ان سے بھی افضل ہوں چناچہ محدثین میں کی ایک مشہور شخصیت علام ابن عبد البر کا رجحان اسی طرف ہے انہوں نے اسی طرح کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس کا ذکر شیخ ابن حجر مکی (رح) کی صواعق محرقہ میں موجود ہے، لیکن جمہور علماء کا اجماع و اتفاق اسی پر ہے کہ امت کے افضل ترین افراد صحابہ کرام ہی ہیں کوئی بھی غیر صحابی خواہ دین و شریعت علم و معرفت، ولایت و بزرگی اور تقوی و تقدس میں کتنا ہی اونچا مقام رکھتا ہو، صحابی کی منزل اور اس کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، ان جمہور علماء نے ان احادیث کے بارے میں کہ جن سے ابن عبد البر نے استدلال کیا ہے کہا ہے کہ ان احادیث کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت کی جاسکتی ہے وہ کسی غیر صحابی کی کسی ایک گوشہ سے جزوی فضیلت ہے لیکن جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے، کہ جو کثرت ثواب سے عبارت ہے تو وہ صرف صحابہ کے لئے ہے۔ ان علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس گفتگو میں صحابہ سے مراد وہ خاص الخاص صحابہ ہیں جن کو آنحضرت ﷺ کی صحبت ومعیت میں طویل عرصہ تک رہنے کا شرف نصیب ہوا ہو، جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے بہت زیادہ اکتساب علم وفیض کیا ہو اور جو آنحضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے ہوں، رہے وہ عام العوام صحابہ جن کو ایک آ دھ ہی مرتبہ زیارت نبوی ﷺ کا موقع ملا ہو اور بعض تو ایسے بھی ہیں جن کو پوری عمر میں بس ایک ہی مر تبہ چہرہ اقدس کا دیدار نصیب ہوا تو ان کا مسئلہ محل توقف وتردد اور محل نظر ہے، لیکن حق یہ کہ آنحضرت ﷺ کی صحابیت کا وہ شرف و فضل جو کسی بھی صحابی کو کسی بھی غیر صحابی سے افضل و برتر مقام عطا کرتا ہے، ہر صحابی کو حاصل ہے، اگرچہ کسی صحابی کو صرف ایک ہی بار آنحضرت ﷺ کے چہرہ اقدس کے دیدار کا موقع ملا ہو اور اس فضل وشرف میں تو کوئی بھی کسی صحابی کا ہمسر و شریک نہیں ہوسکتا، ہا علمی وعملی فضیلت میں گفتگو کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے لیکن اس جہت سے بھی زیادہ بحث کی بجائے یہی کہنا اولی ہے کہ صحابہ پوری امت میں علی الا طلاق افضل و اشرف ہیں۔
Top