مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6304
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : رأس الكفر نحو المشرق والفخر والخيلاء في أهل الخيل والإبل والفدادين أهل الوبر والسكينة في أهل الغنم متفق عليه
کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کفر کا سرا مشرق کی طرف ہے۔ فخر وتکبر گھوڑے والوں اور اونٹ والوں اور چلانے والوں میں ہے جو اونٹ کے بالوں کے خیموں میں رہتے ہیں (یعنی وہ لوگ جو آبادیوں میں سے دور جنگلات اور صحراؤں میں رہتے ہیں اور اس طرح کے لوگ اس زمانہ میں زیادہ تر اونٹ کے بالوں سے بنے خیموں میں رہتے تھے) اور نرمی ومسکینی بکری والوں میں ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کفر کی چوٹی سے مراد بڑا کفر ہے جیسا کہ علامہ سیوطی (رح) نے لکھا ہے۔ اور یہ مفہوم مراد لینا زیادہ صحیح ہے کہ کفر پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کی جگہ مشرق ہے، چناچہ علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے رأس الامر الاسلام (دین کی چوٹی اسلام ہے) گویا کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے کا مطلب یہ ہوا کہ کفر کا زیادہ ظہور مشرق کی سمت ہے اور ابن ملک نے یہی معنی لکھے ہیں کہ کفر اور دجال اور یاجوج و ماجوج جیسے بڑے فتنے مشرق کی طرف ظاہر ہوں گے اور علامہ نووی (رح) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کفر کو مشرق کے ساتھ مختص کرنے کا مطلب اہل مشرق پر شیطان کے زیادہ تسلط کو ظاہر کرنا ہے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے اعتبار سے ہے (یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مشرقی اقوم کفر وشرک میں بہت زیادہ مبتلا تھیں جیسا کہ تاتار ہندوستان چین اور جاپان وغیرہ کے لوگ اور یہ ممالک عرب سے مشرق کی جانب واقع ہیں) نیز اس کا اطلاق بایں اعتبار زمانہ آئندہ پر بھی ہوسکتا ہے کہ دجال کا خروج ظہور اس علاقہ سے ہوگا جو عرب کے مشرق میں ہے پس آخر زمانہ میں بھی عرب کا مشرق سب سے بڑے فتنہ کے ظاہر ہونے کی جگہ ہوگا اور سیوطی نے باجی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہاں مشرق سے مراد فارس (ایران) ہے یا نجد اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس میں ابلیس کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے (یعنی جب مشرق میں سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت شیطان اپنا سر سورج کے قریب کردیتا ہے تاکہ سورج پرستوں کا سجدہ اسی کے لئے ہوجائے۔
Top