مشکوٰۃ المصابیح - اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں - حدیث نمبر 6280
عبد الرحمن بن عوف زہری
حضرت عبدالرحمن بن عوف زہری، زہرہ بن کلاب کی اولاد سے ہیں، کلاب بن مرہ پر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ا کی ہوجاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، ان کی ولادت واقعہ فیل کے دس سال بعد ہوئی ابتداء اسلام ہی میں انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا، ان کی والدہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں، حبشہ کی طرف انہوں نے دوہجرتیں کیں، جنگ بدر میں شریک ہوئے اور دوسرے تمام غزوات میں بھی آنحضرت ﷺ کے دوش بدوش رہے، جنگ احد میں کے دن میدان کار زار میں پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنے والوں میں عبدالرحمن بن عوف بھی تھے، اس دن انہوں نے بیس سے زیادہ زخم کھائے تھے۔ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے ان کے پیچھے نماز ادا کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف غزوہ تبوک میں نہیں جاسکتے تھے اور اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی تھی کہ چار ہزار دینار اللہ کی راہ میں صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار دینار اور اللہ کی راہ میں خرچ کئے، پانچ سو گھوڑے مجاہدین اسلام کے لئے پیش کئے اور اسی طرح پانچ سو اونٹ دئیے، آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات کی خبر گیری اور ان کے اخراجات زندگی کا تکفل حضرت عبدالرحمن نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مال و دولت سے نوازا تھا اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی اتنا ہی زیادہ ان کو عطا کیا تھا، تجارت ان کا پیشہ تھا اور ان کا بیشتر مال وزر تجارت ہی سے ان کو حاصل ہوا تھا، منقول ہے کہ یہ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے تو بالکل مفلس وقلاش تھے اور پھر اس پاک شہر میں ان کو خیر و برکت حاصل ہونی شروع ہوئی تو اللہ نے وہم و گمان سے زیادہ ان کو نوازا بیان کیا جاتا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے چار بیویاں تھیں اور ان کو ترکہ کے آٹھویں حصہ کے چوتھائی پر مصالحت کرنی پڑی اور اس صورت میں بھی ان کے حصہ میں اسی ہزار درہم یا دینار آئے۔ حضرت عبدالرحمن کی میراث ایک ہزار ساٹھ آدمیوں کے درمیان تقسیم ہوئی اور ہر ایک کو اسی اسی ہزار درہم ملے۔ یہ منقول ہے کہ انہوں نے اپنی میراث میں سے ہر بدری صحابی کو چار چار سو دینار دینے کی وصیت کی تھی جو پوری کی گئی۔ روایت ہے کہ ایک دن ام المؤمنین حضرت عائشہ نے حضرت عبدالرحمن ؓ بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا میں نے عبدالرحمن کو بہشت میں جاتے ہوئے دیکھا اور وہ بہشت میں اسی طرح گھس رہے تھے جیسے کوئی بچہ سرین یا ہاتھ پاؤں کے بل چلتا ہے، جس دن حضرت عائشہ نے عبدالرحمن کو یہ حدیث سنائی اسی دن ان کا ایک تجارتی قافلہ سات سو اونٹوں پر مال لادے ہوئے ملک شام سے چل کر مدینہ پہنچا تھا، انہوں نے اپنے بارے میں دخول جنت کی یہ بشارت سن کر شکرانہ میں وہ تمام لدے پھندے اونٹ مع ان کو پالانوں اور جھولوں کے اللہ کی راہ میں صدقہ کردئیے روایت ہے کہ وفات کے وقت حضرت عبدالرحمن بےہوش ہوگئے تھے جب کچھ دیر کے لئے ہوش میں آئے تو بولے ابھی میرے پاس دو فرشتے آئے تھے جو بڑے سخت اور درشت خومعلوم ہوتے تھے انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے آپس میں کہا کہ ہم اس شخص کو حاکم امین عزیز کے حضور لے جا رہے ہیں، اتنے میں دو فرشتے آگئے اور ان دونوں نے پہلے فرشتوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کہاں لے جا رہے ہو؟ وہ دونوں بولے! حاکم امین عزیز کے حضور۔ نو وارد فرشتوں نے کہا یہ تو وہ شخص ہے جس میں سعادت ونیک بختی نے اسی وقت گھر کرلیا تھا جب یہ ماں کے پیٹ میں تھا، حضرت عبدالرحمن کی علمی حیثیت بھی بہت بلند تھی، فقہی تبحر اور دینی احکام و مسائل پر عبور رکھنے کے سبب صحابہ میں نہایت ممتاز درجہ رکھتے تھے، چناچہ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان تینوں کے عہد خلافت میں فتوی دینے کی بڑی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی۔ حضرت عبدالرحمن کی رنگت سرخ سفید تھی، قد دراز تھا، چہرہ چھوٹا تھا اور پاؤں کو تیر لگنے سے جو نقصان پہنچا تھا اس کے سبب لنگڑے ہوگئے تھے ان کی وفات حضرت عثمان کے عہد خلافت میں ہوئی،
Top