مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6254
وعن قيس بن حازم قال : كان عطاء البدريين خمسة آلاف . وقال عمر : لأفضلنهم على من بعدهم . رواه البخاري
انصار کی فضیلت
اور حضرت قیس بن ابی حازم (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے ان میں سے ہر ہر شخص کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار درہم تھا جو بیت المال سے ادا کیا جاتا تھا اور حضرت عمر نے فرمایا تھا میں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کو (مرتبہ میں) دوسرے تمام لوگوں پر ترجیح دیتا ہوں۔ (بخاری)

تشریح
جنگ بدر میں شریک ہونے والے ہر صحابی کے لئے حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بیت المال سے پانچ ہزار درہم سالانہ کا وظیفہ مقرر ہوا تھا جو مقدار میں دوسرے تمام لوگوں کے وظائف سے زیادہ تھا، حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد خلافت میں وظائف کے جو منضبط درجات قائم کئے اس میں بھی چند مخصوص لوگوں (جیسے حضرت عباس اور ازواج مطہرات) کو چھوڑ کر تمام درجات کے وظائف کی تعداد اصحاب بدر کے وظائف کی تعداد سے کم ہی رکھی اور اس طرح حضرت عمر فاروق نے بھی نہ صرف یہ کہ عملی طور پر اصحاب بدر ہی کا درجہ ورتبہ دوسرے تمام لوگوں سے بلندو برتر رکھا بلکہ مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ گویا وضاحت بھی کردی کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ کی مخصوص نسبت کا لحاظ کرکے میں نے بعض وظائف اصحاب بدر کے وظائف سے زائد مقرر کئے ہیں لیکن جہاں تک درجاتی رتبہ کا تعلق ہے تو میرے نزدیک بھی اصحاب بدر ہی کا درجہ دوسرے تمام لوگوں کے درجات سے بلند ہے اور ان کے وظائف دوسرے تمام درجات کے وظائف سے زیادہ ہونے چاہئیں۔ اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں واضح ہو کہ امام بخاری نے جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کچھ مخصوص صحابہ کے اسماء اپنی کتاب بخاری شریف کے ایک الگ باب میں بطریق اجمال مفصل ذکر کئے ہیں یہ بدری صحابہ وہ ہیں جن کے بدری ہونے کا ذکر بخاری میں آیا ہم اور جن کی روایتیں اس کتاب (بخاری) میں نقل ہوئی ہے اور ایک الگ باب میں ان مخصوص بدری صحابہ کے اسماء کے ذکر سے امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے تمام بدری صحابہ پر ان مخصوص صحابہ کی فضیلت سبقت اور برتری کا اظہار ہو اور ان کے حق میں الگ سے بطور خاص دعاء رحمت ورضوان کی جائے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے، علماء نے لکھی ہے کہ بخاری شریف کے اس باب اصحاب بدر کے جو اسماء مذکور ہیں ان کے ذکر وبیان کے وقت جو بھی دعا مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول فرماتا ہے۔ امام بخاری اس باب میں سب سے پہلے سرکار دوعالم ﷺ کا اسم مبارک، پھر خلفاء اربعہ کے اسماء گرامی لائے ہیں اور پھر باقی صحابہ کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں۔ امام بخاری کے مقصد اور ان کی اتباع کی برکت حاصل کرنے کے لئے مشکوٰۃ المصابیح کے مؤلف نے بھی ان اسماء مبارک کو جوں کا توں یہاں نقل کیا ہے۔ اور ملاعلی قاری نے لکھا ہے اس باب میں ان اصحاب بدر کے ناموں کا ذکر ہے جن کے حقیقۃ یا حکما ً بدری ہونے کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے ارویہ (حقیقۃً یا حکماً کی قید) اس لئے ہے تاکہ اس زمرہ میں حضرت عثمان غنی کا نام شامل کرنا درست مانا جائے (جو آنحضرت ﷺ کے حکم سے حقیقۃً تو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن حکماً ان کو بھی بدری مانا جاتا ہے پس اس باب میں ان بدری صحابہ کے نام نہیں ہے جو نہ تو بخاری نے اپنے اس باب میں بیان کئے ہیں اور نہ سرے سے ان کا ذکر بخاری میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری نے اصحاب بدر کی فہرست پر مشتمل اپنے اس باب میں صرف ان بدری صحابہ کے نام ذکر کئے ہیں جن کے متعلق صحیح بخاری شریف میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے خواہ خود ان صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃ ً ایسا بیان کیا ہو یا دوسروں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو۔ اس طرح ان بدری صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃً ایسا بیان کیا ہو یا دوسروں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو۔ اس طرح ان بدری صحابہ کے نام اس باب میں ذکر نہیں ہوئے ہیں جن کا ذکر گو صحیح بخاری شریف میں آیا ہے، مگر اس صراحت کے ساتھ نہیں آیا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس بات پر حیرت واشکال کا موقع نہیں رہ جاتا کہ مخصوص بدری صحابہ کی فہرست پر مشتمل اس باب میں ایک جلیل القدر بدری صحابی حضرت ابوعبیدۃ الجراح کا اسم گرامی ذکر نہیں ہوا ہے۔ حضرت عبیدہ بلاشبہ جنگ بدر میں شریک تھے اور اس پر تمام ہی محدثین اور اصحاب سیر کا اتفاق ہے، علاوہ ازیں بخاری شریف میں متعدد مواقع پر ان کا ذکر بھی آیا ہے مگر بخاری کی کسی روایت میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے۔
Top