حضرت جابر کے والد کی فضیلت
اور حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا جابر! کیا بات ہے کہ میں تم کو افسردہ و غمگین دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے والد (حضرت عبداللہ) کو غزوہ احد میں شہید کردیا گیا اور وہ (ایک بڑا) کنبہ اور قرضہ چھوڑ گئے ہیں، گویا میری پریشانی اور افسردگی کے کئی سبب پیدا ہوگئے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں اس معاملہ کی خبر دے کر تمہیں خوش نہ کردوں جو اللہ نے تمہارے والد کے ساتھ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ﷺ! (مجھ کو خوش خبری سے ضرور نوازئیے) آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے کلام کیا ہے۔ حجاب کے پیچھے سے کیا ہے، مگر تمہارے والد کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور پھر ان سے رودبرو کلام فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ اور تمہارے والد کے درمیان نہ کوئی حجاب حائل تھا اور نہ کوئی دوسرا واسطہ) اور فرمایا اے میرے (خاص) بندے میرے فضل و کرم کے سہارے آرزو کر (یعنی جس چیز کی خواہش ہو مجھ سے مانگ) میں تجھ کو عطا کروں گا (یہ سن کر) تمہارے والد گویا ہوئے، میرے پروردگار! (میں بس یہ چاہتا ہوں کہ) مجھ کو زندہ کرکے دنیا میں بھیج دے تاکہ تیری راہ میں لڑتا ہوا ایک مرتبہ پھر مارا جاؤں (اور تیری رضا و خوشنودی مزید حاصل کرنے کا ایک اور وسیلہ مجھ کو مل جائے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس بارے میں یہ حقیقت محلوظ رہنی چاہئے کہ میرا یہ حکم پہلے سے نافذ ہے کہ جو مرچکے ہیں دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے اور پھر (انہی تمہارے والد اور دوسرے شہداء احد کے حق میں) یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں ان کو مردہ مت خیال کرو الخ۔ (ترمذی)
تشریح
اور تمہیں خوش نہ کردوں آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کی جو پریشانی آتی ہے اور جو بھی غم پڑتا ہے وہ دیر سویر زائل ہوجاتا ہے اور آسانی کی راہ نکل ہی آتی ہے۔ تمہارے والد نے جو بڑا کنبہ چھوڑا ہے اللہ اس کے تکفل کا انتظام کرادے گا اور جو قرضہ وہ چھوڑ گئے ہیں اللہ کے فضل سے اس کی ادائیگی بھی ہوجائے گی۔ لہٰذا اس وقت جس دنیاوی غم واندوہ کا تمہیں سامنا ہے اس کا صبر وشکر کے ساتھ انگیز کرنا چاہئے اور محض اس کی وجہ سے اپنے آپ کو غمگین ودل گیر نہ رکھنا چاہئے، بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو شہادت کا مرتبہ عظمی عطا فرمایا اور اس سعادت سے مشرف فرمایا جو مولیٰ کی رضا وقرب اور مولیٰ کے کرم کو ظاہر کرتی ہے۔ پس اس ارشاد گرامی میں ایک تو اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اولاد سیدھی راہ پر ہو تو باپ کی فضیلت و بزرگی اس میں بھی سرایت کرتی ہے اور دوسرے اس طرف اشارہ ہے کہ باپ کو حاصل ہونے والی خوشی وسعادت پر اولاد کو بھی خوش ہونا چاہئے۔ اللہ نے جب بھی کسی سے کلام کیا یعنی تمہارے والد سے پہلے جس کسی سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو رودر رو کلام نہیں کیا بلکہ پردہ کے پیچھے سے کیا۔ ان الفاظ میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ (یعنی جابر کے والد) بالخصوص ان تمام شہیدوں سے افضل ہیں جو ان سے پہلے شہید ہوئے کیونکہ ان میں سے جس کسی سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہوگا وہ پردہ کے پیچھے سے کیا ہوگا۔ واضح ہو کر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآء حجاب (الایۃ) یہ تو اس کا تعلق صرف اس دنیا سے ہے نہ کہ آخرت سے تمہارے والد کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے بارے میں جب یہ فرمایا کہ بل احیاء عندہم (بلکہ وہ شہداء اپنے رب کے پاس زندہ ہیں) تو پھر حضرت جابر ؓ کے شہید والد کے متعلق آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا کیا معنی رکھتا ہے! اس کا جواب ایک شارح نے یوں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو سبز جانور کے قلب میں منتقل کیا اور پھر اس جانور کو اس روح کے ذریعہ حیات عطا کی جیسا کہ ہر شہید کے ساتھ ہوتا ہے، پس آنحضرت ﷺ نے ان کو اسی حیات عطا کئے جانے کو زندہ کیا سے تعبیر فرمایا اور ایک جواب یہ لکھا ہے کہ یہاں زندہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو اتنی قوت عطا فرمائی جس سے ان کو روبرو کلام میں دیدار الہٰی کا تحمل حاصل ہوا۔ دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے یعنی یہ تو اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو مرچکے ہیں ان کو اس دنیا میں اس طرح دوبارہ زندگی نہیں ملے گی کہ پھر وہ مدت دراز تک جیتے رہیں اور اس مدت میں نیکیاں کرتے ہیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں یہ ارشاد گرامی اس بات کے منافی ہوگا کہ بعض مردوں کا دوبارہ اسی دنیا میں جی اٹھنا ثابت ہے جیسا کہ مثلا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ اعجاز منقول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کچھ عرصہ کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کردیتے تھے اور اس سے بھی زیادہ وضاحت یہ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو لوگ ایک مرتبہ مرچکے ہیں وہ درخواست یا آرزو کرکے اس دنیا میں دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے اس صورت میں شہید دجال والی روایت کے تحت بھی اس ارشاد گرامی پر کوئی اشکال لازم نہیں آئے گا، نیز سید جمال الدین نے یوں لکھا ہے کہ انہم لایرجعون (وہ دنیا میں لوٹ کر نہیں آئیں گے) میں انہم کی ضمیر کا مرجع صرف شہداء میں اور شہداء سے بھی چاہے جنگ احد کے شہداء مراد لئے جائیں یا مطلق شہداء اور یہ خاص مرجع متعین کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعہ کی بنا پر اس ارشاد گرامی میں اشکال واقع نہ ہو۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی اور پوری آیت یوں ہے (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) 3۔ ال عمران 169) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں ان کو مردہ مت خیال کرو، بلکہ اپنے رب کے پاس (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے (اور) وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔