مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6216
وعن حفصة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إني لأرجو أن لا يدخل النار إن شاء الله أحد شهد بدرا والحديبية قلت : يا رسول الله أليس قد قال الله تعالى : [ وإن منكم إلا واردها ] قال : فلم تسمعيه يقول : [ ثم ننجي الذين اتقوا ] وفي رواية : لا يدخل النار إن شاء الله من أصحاب الشجرة - أحد - الذين بايعوا تحتها . رواه مسلم
اصحاب بدر وحدیبیہ کی فضیلت
اور ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں امید رکھتا ہوں کہ جو شخص بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوا وہ انشاء اللہ دوزخ کی آگ میں داخل نہ ہوگا، میں نے (یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو دوزخ پر وارد نہیں ہو! آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تم نے یہ نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اس کے بعد) یہ بھی فرمایا ہے کہ پھر ہم ان لوگوں کو دوزخ میں جانے سے بچائیں گے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اصحاب شجرہ میں سے کوئی شخص انشاء اللہ دوزخ کی آگ میں داخل نہ ہوگا اور اصحاب شجرہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے (حدیبیہ کے مقام پر) درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ان منکم الا واردہا یہ قرآن کی آیت کے الفاظ ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو پل صراط سے گزرنا ہوگا اور پل صراط چونکہ دوزخ کے اوپر قائم کیا جائے گا اس لئے دوزخ کا سامنا لامحالہ ہر شخص کو کرنا پڑے گا اور علامہ نووی نے لکھا ہے کہ دوزخ پر وارد ہونے مراد پل صراط سے گزرنا ہے، بہر حال جب پل صراط پر سے گزرنے کا مرحلہ سلامتی کے ساتھ طے کرلیں گے۔ اور جنت میں چلے جائیں گے۔ لیکن حضرت حفصہ کے خیال میں یہ بات تھی کہ قرآن کے ان الفاظ میں واردہا کے معنی داخلہا (اور دوزخ میں داخل ہونے) کے ہیں، چناچہ انہوں نے سوچا کہ جب قرآن کے ان الفاظ کے مطابق دوزخ میں داخل ہونے سے کوئی بھی شخص مستثنیٰ نہیں ہوگا تو اہل بدر و حدیبیہ کے حق میں دخول دوزخ کی نفی کا مصداق ومحمول کیا ہوسکتا ہے اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ خود اسی آیت میں ان الفاظ کے بعد (ثُمَّ نُ نَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا) 19۔ مریم 72) کے جو الفاظ ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا بلکہ وہی لوگ دوزخ میں جائیں گے جو نجات کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ مستوجب عذاب قرار دئیے جاچکے ہوں گے اور یہ کہ واردہا کے معنی دوزخ میں داخل ہونے کے نہیں بلکہ دوزخ کے اوپر سے گذرنے کے ہیں واضح رہے کہ حضرت حفصہ نے آنحضرت ﷺ کا ارشاد سن کر جو کچھ کہا وہ مناظرہ بازی کے انداز میں اور اعتراض کے طور پر نہیں تھا بلکہ اصل میں جب حضرت حفصہ نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو اپنے خیال کے مطابق بظاہر آیت قرآنی کے موافق نہیں پایا تو ان کو حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دقت ہوئی اور تب انہوں نے بغرض استفادہ مذکورہ الفاظ میں آنحضرت ﷺ سے سوال کیا۔ گویا حضرت حفصہ کا یہ سوال اس حکم کی تعمیل میں تھا کہ اگر کسی آیت یا کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہ آئیں، یا کسی آیت اور حدیث کے درمیان تطبیق سمجھ میں نہ آئے اور یا کوئی بھی دینی بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو اس کو کسی عالم سے پوچھ لینا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( فَسْ َ لُوْ ا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 16۔ النحل 43) (پس تم اہل ذکر یعنی اہل علم سے دریافت کرلو اگر تم ناواقف اور لاعلم ہو)۔
Top