مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6210
وعنه قال : مر أبو بكر والعباس بمجلس من مجالس الأنصار وهم يبكون فقال : ما يبكيكم ؟ قالوا : ذكرنا مجلس النبي صلى الله عليه و سلم منا فدخل أحدهما على النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بذلك فخرج النبي صلى الله عليه و سلم وقد عصب على رأسه حاشية برد فصعد المنبر ولم يصعده بعد ذلك اليوم . فحمد الله وأثنى عليه . ثم قال : أوصيكم بالأنصار فإنهم كرشي وعيبتي وقد قضوا الذي عليهم وبقي الذي لهم فاقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم . رواه البخاري
انصار کی فضیلت
اور حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کے مرض وفات کے دوران ایک دن) حضرت ابوبکر اور حضرت عباس ؓ انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گذرے تو ( دیکھا کہ) وہ اہل مجلس ہمیں یاد آگئی تھی۔ (یہ سن کر) ان دونوں میں ایک صاحب (یعنی یا تو حضرت ابوبکر یا حضرت عباس ؓ ما) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو اس بات سے آگاہ کیا۔ کہ (انصار کی جماعت آپ ﷺ کی مجلس مبارک کو یاد کر کے رو رہی ہے) چناچہ نبی کریم ﷺ اس حالت میں حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے کہ (درد سر کو کم کرنے کے لئے) چادر کا ایک کونہ بطور پٹی سر مبارک پر باندھ رکھا تھا، پھر آپ ﷺ (خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد پھر آپ ﷺ کو منبر پر چڑھنا نصیب نہیں ہوا۔ پہلے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی کامل ثنا بیان کی اور پھر فرمایا (اے مہاجرو) میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے ساتھ رعایت و حمایت اور سلوک کا رویہ اختیار کئے رہنا) کیونکہ انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان پر جو حق تھا اس کو انہوں نے ادا کردیا اور جو کچھ ان کا ہے (یعنی اجروثواب اور سرفرازی جنت) وہ اللہ کے ہاں باقی ہے پس ان کے نیک لوگوں کا عذر (کہ جو اپنی لغزش اور کوتاہی کے سلسلہ میں بیان کریں) قبول کرو اور ان کے برے لوگوں برے کاموں سے (کہ جن کا عذر پیش کرنے سے وہ عاجز ہوں) درگزر کرو (بخاری)

تشریح
کرش ( اور ایک نسخہ کے مطابق کرش) اصل میں چوپایوں (یعنی بیل اور گائے وغیرہ) کے کوٹھے یا اوجھ کو کہتے ہیں جو آدمیوں کے لئے معدہ کہلاتا ہے اور عیبہ جامہ دانی یعنی بغچی یا گٹھری کو کہتے ہیں۔ پس انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں سے مراد یہ ہے کہ انصار میرے راز دار، ولی دوست اور تمام امور میں میرے محرم اسرار اور معتمد علیہ ہیں۔ گویا آپ ﷺ نے انصار کو ان چیزوں سے مشابہت اس بناء پر دی کہ جیسے اوجھ یا معدہ میں چارہ اور کھانا جا کر جمع ہوجاتا ہے اور جامہ دانی میں کپڑے محفوظ رکھے جاتے ہیں، اسی طرح آنحضرت ﷺ کی راز کی باتیں اور امانتیں انصار کے پاس رہتی ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغت میں کرش کے ایک اور معنی عیال، چھوٹے بچوں اور جماعت کے بھی آتے ہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ کرش کا لفظ اس معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ انصار میری جماعت میرے اصحاب ورفیق اور میرے لئے میرے عیال اور میرے چھوٹے بچوں کی مانند ہیں۔ جن پر میری شفقت و مہربانی ہے۔ اور جن کا میں غمخوار ہوں۔ ان پر جو حق تھا میں حق سے مراد جان ومال سے امداد ومعاونت اور خیرخواہی ہے۔ اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ انصار کے نمائندوں نے مدینہ سے مکہ پہنچ کر لیلۃ العقبہ میں میرے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرتے ہوئے جو وعدہ اور جو عہد کیا تھا کہ اللہ کی راہ میں جان مال سے ہر طرح میری مدد کریں گے۔ اور اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا تھا۔ جیسا کہ اس موقع پر نازل ہونے والی اس آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) 9۔ التوبہ 111) سے واضح ہے، تو اپنے اس عہد کو انصار نے کماحقہ پورا کردیا ہے۔
Top