مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6200
عن أنس قال : كان ثابت بن قيس بن شماس خطيب الأنصار فلما نزلت هذه الآية : [ يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ] إلى آخر الآية جلس ثابت في بيته واحتبس عن النبي صلى الله عليه و سلم فسأل النبي صلى الله عليه و سلم سعد بن معاذ فقال : ما شأن ثابت ايشتكى ؟ فأتاه سعد فذكر له قول رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال ثابت : أنزلت هذه الآية ولقد علمتم أني من أرفعكم صوتا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فأنا من أهل النار فذكر ذلك سعد للنبي صلى الله عليه و سلم . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : بل هو من أهل الجنة . رواه مسلم
حضرت ثابت بن قیس کو جنت کی بشارت
اور حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس انصار کے خطیب تھے (یعنی انصار میں یہ وہ شخص تھے جن کی بات چیت فصاحت و بلاغت سے پُر ہوتی تھی اور جو نثر کے مانے ہوئے ادیب وخطیب تھے) جب یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49۔ الحجرات 2) (یعنی اے ایمان والو، اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو الخ) تو ثابت اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آنا جانا بند کردیا، نبی کریم ﷺ نے (ایک دن) سعد بن معاذ ؓ سے (جوانصار کے سردار تھے) پوچھا کہ ثابت کو کیا ہوا (کہ انہوں نے آنے جانے بند کر رکھا ہے اور کہیں دکھائی نہیں دیتے) کیا وہ بیمار ہیں؟ سعد (چپ رہے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ خود ان کو ثابت کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور تحقیق کئے بغیر کوئی جواب دینے سے قاصر تھے، چناچہ وہ تحقیق حال کے لئے) ثابت کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کے الفاظ نقل کئے (کہ آنحضرت ﷺ تمہیں پوچھ رہے تھے اور فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں جو ہمارے پاس نہیں آتے) ثابت نے (یہ سن کر) کہا کہ یہ آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49۔ الحجرات 2) نازل ہوئی (جو آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز میں بات چیت کرنے سے منع کرتی ہے) اور تم جانتے ہی ہو کہ تم میں سب سے زیادہ میری ہی آواز رسول کریم ﷺ کی آواز بلند ہے، لہٰذا میں تو دوزخی ہوں، سعد ؓ نے آکر نبی کریم ﷺ سے ثابت کے الفاظ نقل کئے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ثابت تو جنتی ہے۔ (مسلم)

تشریح
کیا وہ بیمار ہیں؟ ظاہر یہ ہے کہ حضرت ثابت ؓ کے صدق حال نے تاثیر کی اور آنحضرت ﷺ کے دریافت کرنے کا باعث ہوا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں پوچھا اور تشویش ظاہر فرمائی کہ وہ کہیں بیمار تو نہیں ہیں جو ہماری مجلس میں ان کا آناجانا بند ہے حالت خویش چہ حاجت کہ بوئے شرح دہم گر مرا سوز دلی ہست اثر خواھد کرد میں تو دوزخی ہوں دراصل حضرت ثابت طبعی و جبلی طور پر بلند آواز تھے اور خطابت کے وصف نے ان کی آواز اور ان کے لب و لہجہ کو اور زیادہ جاندار اور بلند کردیا تھا چناچہ بات چیت میں ان کی آواز بلاقصد بھی بلند ہوجایا کرتی تھی۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو وہ یہ سمجھے کہ میں اپنی آواز کو پست رکھنے پر چونکہ قادر ہی نہیں ہوں اور آنحضرت ﷺ کے سامنے بھی میری آواز لا محالہ بلند رہتی ہے اس لئے میں اس آیت کے عدم تعمیل کا مرتکب ہوں اور اسی کے سبب میرے سارے اعمال برباد ہوگئے، میں دوزخی ہوگیا، انہوں نے یہ نہیں جانا کہ اس آیت کی مراد آنحضرت ﷺ کے سامنے اس اونچی آواز میں گفتگو کرنے سے منع کرنا ہے جو قصد واختیار کے تحت ہو اور جس سے بےادبی ظاہر ہوتی ہو۔ ثابت توجنتی ہے یعنی ثابت نے میرے ادب و احترام میں جس شدت سے احتیاط کا پہلواختیار کیا کہ طبعی و جبلی بلند آواز کو بھی ناجائز رکھا اس کی بناء پر اس نے جنت کا استحقاق پیدا کرلیا ہے وہ جنت میں جائے گا، چناچہ حضرت ثابت بن قیس ؓ کا جنتی ہونا واقعاتی طور پر بھی اس طرح ثابت ہوا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ جنگ یمامہ میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا، منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صد یق ؓ نے جب مسلیمہ کذاب کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور مجاہدین اسلام کو تیاری کا حکم دیا تو حضرت ثابت بن قیس ؓ نے اپنا کفن تیار کرایا اور اسی کفن کو پہن کر جنگ یمامہ میں مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑے، یہاں تک کہ وہی کفن پہنے ہوئے شہید ہوئے۔ اس حدیث کے تحت ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت کا ٩ ھ میں نازل ہونا بیان کیا جاتا ہے جب کہ حضرت سعد بن معاذ اس سے پہلے ٥ ھ ہی میں وفات پاچکے تھے؟ اس کا جواب شارحین نے یہ لکھا ہم کہ اس حدیث میں حضرت ثابت کے تعلق سے جس آیت کا ذکر ہے وہ بس وہی ہے جس میں فقط آواز بلند نہ کرنے کا حکم مذکور ہے یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْ ا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ) 49۔ الحجرات 2) نہ کہ سورت کی پہلی آیت یعنی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُ قَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ۔ الخ) 49۔ الحجرات 1) کا پس سورت کی یہ پہلی آیت تو ٩ ھ میں نازل ہوئی ہوگی اور حدیث میں مذکورہ آیت حضرت سعد بن معاذ ؓ کے انتقال سے پہلے نازل ہوچکی ہوگی۔
Top