حضرت عبداللہ بن سلام کا خواب اور ان کو جنت کی بشارت
اور حضرت قیس بن عباد (جو ایک ثقہ تابعی ہیں) بیان کرتے ہیں میں ( ایک روز) مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صاحب ( مسجد میں) آئے جن کے چہرہ سے خشوع (یعنی وقار و سکون اور قربت الہٰی کانور) ظاہر تھا (مسجد میں جو صاحبان موجود تھے ان میں سے) بعض نے کہا یہ صاحب جنتی ہیں، پھر ان صاحب نے (تحیۃ المسجد کی یا کوئی اور) دو رکعت نماز پڑھی اور دونوں رکعتیں ہلکی و مختصر پڑھیں اور پھر مسجد میں چلے گئے میں بھی (مسجد سے نکل کر) ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اور (ایک جگہ پہنچ کر) ان سے بولا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو بعض لوگوں نے کہا تھا کہ یہ صاحب جنتی ہیں ( اس بارے میں آپ مجھ کو بتانے کی زحمت گوارا فرمائے) ان صاحب نے کہا واللہ، (میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا کیونکہ) کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس بات کو کہے جس کو نہیں جانتا اور میں تم کو اس (عدم تصدیق) کی وجہ بتاتا ہوں۔ (بات یہ ہوئی تھی کہ) رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ( ایک روز) میں نے ایک خواب دیکھا تھا اور وہ خواب میں نے آنحضرت ﷺ سے بیان کردیا تھا میں نے (خواب میں) دیکھا تھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ پھر ان صاحب نے اس باغ کی وسعت و کشادگی اور تروتازگی وشادابی کا ذکر کیا اور (کہا کہ پھر میں نے دیکھا کہ) اس باغ کے بیچوں بیچ لو ہے کا ایک ستون ہے کہ جس کا نیچے کا سرا زمین کے اندر ہے اور اس کے اوپر کا سرا آسمان میں ہے اور اس ستون کے اوپر ایک حلقہ ہے، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اوپر چڑھو! میں نے کہا میں چڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تب ایک خادم میرے پاس آیا جس نے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے اور میں اوپر چڑھنے لگا، یہاں تک کہ میں اس ستون کی آخری بلندی تک پہنچ گیا اور اس حلقہ کو پکڑ لیا، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اس حلقہ کو مضبوط پکڑے رہنا۔ اور پھر میری آنکھ کھل گئی اس حال میں کہ وہ حلقہ میرے ہاتھ میں تھا جب نبی کریم ﷺ کے سامنے میں نے یہ خواب بیان کیا تو آپ ﷺ نے (اس خواب کی تعبیر میں) فرمایا وہ باغ (جو تم نے نہایت وسعت و کشادگی اور تروتازی کے ساتھ دیکھا) دین اسلام ہے اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے (یعنی اسلام کے احکام وارکان سے عبارت ہے جن پر بنائے مسلمانی ہے) اور وہ حلقہ ( کہ جس کو تم نے دیکھا اور پکڑا) عروہ وثقی ہے پس (اس خواب میں اس طرف اشارہ ہے کہ) تم اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اسلام پر ثابت قدم رہو گے اور (قیس بن عباد کہتے ہیں کہ) وہ صاحب حضرت عبداللہ بن سلام ؓ تھے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
کسی شخص کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ ان صاحب یعنی عبداللہ بن سلام ؓ نے گویا ان لوگوں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا جنہوں نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ صاحب جنتی ہیں اور علامہ نووی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے ان کی تصدیق سے یہ انکار اس جہت سے کیا کہ ان لوگوں نے قطعی و یقینی انداز میں ان کے جنتی ہونے کی بات کہی تھی۔ پس کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے تو یہ بات اس بناء پر کہی تھی کہ ان کے علم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی وہ حدیث تھی جس میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے عبداللہ بن سلام ؓ کو جنتی ہونے کی بشارت عطا کئے جانے کا ذکر ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے ان کی اس بات کی تصدیق اس لئے نہیں کی کہ انہوں نے اپنے بارے میں یہ بشارت نہیں سنی ہوگی اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی مذکورہ روایت ان تک نہیں پہنچی ہوگی۔ اور یہ بھی کہا سکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو بھی اپنے بارے میں مذکورہ بشارت کا علم تو تھا، لیکن انہوں نے کسر نفسی کے تحت اس وقت یہ پسند نہیں کیا کہ ان لوگوں کی تصدیق کر کے اپنی عظمت و بڑائی کے اظہار کا سبب بنیں اور اس بشارت کی بنیاد پر لوگوں میں شہرت حاصل کریں۔ گویا ان کے اس انکار کا مطلب یہ تھا کہ بلاشبہ آنحضرت ﷺ کی عطا کردہ بشارت کے تحت میں جنتی ہونے کی توقع رکھتا ہوں لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس بشارت کی بنا پر میری عظمت و بڑائی بیان کی جائے اور میری ذات کو شہرت دی جائے کیونکہ اس طرح کی بشارت میرے علاوہ اور لوگوں کو بھی عطا ہوئی، پھر مجھ میں ہی کیا خصوصیت ہے کہ میں اس بشارت کے ذریعہ مشہور و نمایاں کیا جاؤں اور جیسا کہ طیبی نے لکھا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اپنے ان الفاظ اور میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں کے ذریعہ دراصل ان لوگوں کی تصدیق سے انکار کی طرف اشارہ کیا یعنی انہوں نے گویا یہ کہا کہ میں ان لوگوں کی تصدیق نہیں کرسکتا اور تصدیق نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے یہ خواب دیکھا اس خواب کو آنحضرت ﷺ سے بیان کیا اور آنحضرت ﷺ کی تعبیر میں یہ فرمایا میرے علم کی حد تک تو ساری بات بس اتنی ہی ہے اور یہ بات اس امر میں کہ میں یقینی طور پر جنتی ہوں میرے نزدیک آنحضرت ﷺ کی طرف سے نص قطعی کا درجہ ہرگز نہیں رکھتی جیسا کہ دوسروں کے حق میں اس طرح کی بشارت نص قطعی کی صورت میں مذکور ہے۔ اور بعض شارحین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مذکور الفاظ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے ان لوگوں کی بات کی تصدیق سے انکار نہیں کیا بلکہ دراصل انہوں نے ان کی بات کی تصدیق کی۔ یعنی انہوں نے گویا یہ کہا ہے کہ جو بھی شخص آنحضرت ﷺ کی صحبت سے فیضیاب ہوچکا ہے یا جو شخص آنحضرت ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات سے باخبر ہے وہ ایسی کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتا جو اس کے علم سے باہر کی ہو، پس وہ لوگ اس بات کو جانتے ہی ہوں گے جو انہوں نے میرے متعلق کہا کہ میں جنتی ہوں اور خود میں بھی اس بارے میں تھوڑا بہت جو جانتا ہوں اس کو بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ خواب ہے۔ اس حال میں کہ وہ حلقہ میرے ہاتھ میں تھا یعنی خواب میں اس حلقہ کو میں پکڑے ہی ہوئے تھا کہ اسی لمحہ میری آنکھ کھل گئی پس اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی وہ حلقہ ان کے ہاتھ میں تھا، ویسے اگر روایت کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے کہ بیدار ہونے کے بعد بھی وہ حلقہ ان کے ہاتھ میں تھا تو اس میں کچھ استبعاد بھی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت میں ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے بلکہ عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے اور نہ ان الفاظ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اس خواب کا اثر جاگنے کے بعد بھی میرے ہاتھ میں باقی تھا، یعنی جب صبح ہوئی اور میری آنکھ کھلی تو میری مٹھی اسی حالت میں بند تھی جیسا کہ میں نے خواب میں اس حلقہ کو پکڑ رکھا تھا۔ اور وہ حلقہ عروہ ثقی ہے انہوں نے دراصل اللہ تعالیٰ کے ارشاد ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی ( اور جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھا تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا) کی طرف اشارہ فرمایا کہ خواب میں تمہارے ستون کے اوپر چڑھنا اور اس کے حلقہ کو پکڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمہارا ایمان و اخلاص کامل ہے اور تم نے دین اسلام کو اس مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ درجات و مراتب کی اپنی آخری بلندیوں تک پہنچ گئے ہو۔ وہ صاحب عبداللہ بن سلام ؓ تھے ظاہر تو یہی ہے کہ یہ الفاظ حضرت قیس بن عباد ؓ کے ہیں لیکن یہ بھی بعید نہیں کہ یہ خود حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ہی کے الفاظ ہوں جن کے ذریعہ انہوں نے اپنے بارے میں وضاحت کی اور اپنے غائب سے تعبیر کیا۔