مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6197
وعن أم سليم أنها قالت : يا رسول الله أنس خادمك ادع الله له قال : اللهم أكثر ماله وولده وبارك فيما أعطيته قال أنس : فو الله إن مالي لكثير وإن ولدي وولد ولدي ليتعادون على نحو المائة اليوم . متفق عليه
حضرت انس کے حق میں مستجاب دعا
اور حضرت ام سلیم ؓ سے (جو حضرت انس ؓ کی والدہ ہیں) روایت ہے کہ انہوں نے (جب اپنے بیٹے انس ؓ کو ان کی چھوٹی سی عمر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں پیش کیا تو اس وقت) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ انس ہے جس کو آپ ﷺ کا خادم بناکر آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر رہی ہوں، تو (اس کو حصول ایمان اور آپ کی بابرکت صحبت و خدمت کے سبب آخرت کا اجر و انعام تو ملے ہی گا، رہی دنیاوی خوشحالی و برکت کی بات تو اس بارے میں) اس کے لئے دعا فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی خدایا، اس (انس) کے مال کو زیادہ کر، اس کی اولاد کو بڑھا اور (اپنی طرف سے) جو نعمتیں تو نے اس کو عطا کی ہیں ان میں برکت دے، حضرت انس ؓ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم (آنحضرت ﷺ کی اسی دعا کے سبب) میرا مال نہایت بہتات اور نہایت برکت کے ساتھ ہے۔ اور میری (بلاواسطہ) اولاد اور میری اولاد کی اولاد آج شمار میں سے سو کے قریب ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
آج شمار میں سو کے قریب ہیں حضرت انس ؓ نے اپنی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی یہ تعداد تو اس وقت بیان کی تھی جب انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تھا، اس کے بعد ان کی اولاد میں اور بھی اضافہ ہوا، چناچہ ابن حجر (رح) نے حضرت انس ؓ کی وہ روایت نقل کی ہے جو انہوں نے اس دن کے کافی عرصہ بعد بیان کی تھی اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اولاد کی اولاد کے علاوہ جو اولاد بلا واسطہ میری صلب سے مجھ کو عطا کی ہے۔ وہ تعداد میں ایک سو پچیس ہیں، جن میں دو لڑکیوں کے علاوہ باقی سب لڑکے ہیں اور (میرے مال میں بہتات و برکت کا یہ عالم ہے کہ) میرے باغات سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ نیز حضرت انس ؓ کے ایک صاحبزادے نے بیان کیا کہ والد محترم حضرت انس ؓ کی صلبی اولاد میں سے جن کو میں نے دفنایا ہے۔ ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال ومنال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتیں ہیں بشرطیکہ وہ یاد الہٰی سے غفلت کا موجب اور گناہ و معصیت کا باعث نہ ہوں۔ اور امام نووی لکھتے ہیں یہ (حضرت انس ؓ کا اس قدر کثیرالاولاد ہونا اور کثیر المال ہونا) ہی دراصل آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایک اعجاز ہے۔ نیز یہ حدیث ان حضرات کے حق میں جاتی ہے جو فقیر ومفلس پر غنی و مالدار کی فضیلت کے قائل ہیں۔ لیکن دوسرے حضرات کی طرف سے اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے۔ کہ اس معاملہ کی خصوصی نوعیت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت انس ؓ کے حق میں دعا فرمائی اور اس دعا کی وجہ سے ان کے مال میں برکت ہوئی اور جب برکت (الہٰی کا دخل ہوا تو اس مال کا وہ پہلوجاتا رہا جس کو شریعت کی نظر میں فتنہ کہا جاتا ہے لہٰذا وہ مال حضرت انس ؓ کے حق میں نہ تو تقصیر اور برائی کا باعث بنا اور نہ دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کی دعا مانگے تو اس دعا میں طلب برکت کو بھی شامل کرے یعنی اللہ سے اس چیز کو مانگنے کے ساتھ یہ بھی دعا مانگے کہ اللہ، اس چیز میں برکت عطا فرما اور مجھ کو اس کے فتنہ و آفات سے محفوظ رکھ۔ حضرت انس بن مالک بن نضر ؓ مدینہ کے باشندہ اور خزرجی ہیں، ابوحمزہ ان کی کنیت ہے ان کو ان کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں مدینہ میں اس وقت پیش کیا تھا جب وہ بارہ سال کے تھے انہوں نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں بصرہ کی سکونت اس مقصد سے اختیار کرلی تھی کہ وہاں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دیں گے اور بصرہ ہی میں ٩١ ھ میں انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر ١٠٣ سال تھی بصرہ میں فوت ہونے والے صحابہ میں حضرت انس ؓ آخری صحابی ہیں۔ ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ حضرت انس ؓ کے بیٹوں کی تعداد سو تھی اور یہی قول زیادہ صحیح ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان کی اولاد کی تعداد اسی تھی جن میں اٹھتر بیٹے تھے اور دو بیٹیاں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن حجر (رح) نے جو روایت نقل کی ہے ( اور جس میں حضرت انس ؓ کی اولاد کی تعداد ١٢٥ بیان ہوئی ہے) وہ نہ صرف ان روایتوں کے خلاف پڑتی ہے (کہ جن میں ان کی اولاد کی تعداد ایک سو یا اسی بیان کی گئی ہے) بلکہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی مخالف نظر آتی ہے، کیونکہ اس حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ کی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی مجموعی تعداد سو یا سو سے کچھ متجاوز تھی نہ کہ یہ تعداد صرف ان کی بلا واسطہ اولاد کی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top