مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6155
وعن أسامة قال : كنت جالسا إذ جاء علي والعباس يستأذنان فقالا لأسامة : استأذن لنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : يا رسول الله علي والعباس يستأذنان . فقال : أتدري ما جاء بهما ؟ قلت : لا . قال : لكني أدري فأذن لهما فدخلا فقالا : يا رسول الله جئناك نسألك أي أهلك أحب إليك ؟ قال : فاطمة بنت محمد فقالا : ما جئناك نسألك عن أهلك قال : أحب أهلي إلي من قد أنعم الله عليه وأنعمت عليه : أسامة بن زيد قالا : ثم من ؟ قال : ثم علي بن أبي طالب فقال العباس : يا رسول الله جعلت عمك آخرهم ؟ قال : إن عليا سبقك بالهجرة . رواه الترمذي وذكر أن عم الرجل صنو أبيه في كتاب الزكاة
اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار
اور حضرت اسامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں (آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر) بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ آئے جو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت کے طلب گار تھے چناچہ ان دونوں نے اسامہ ؓ سے (جو ان دنوں چھوٹی عمر کے تھے) کہا کہ تم رسول کریم ﷺ سے ہمارے لئے حاضری کی اجازت طلب کرو میں نے (گھر کے اندر جا کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ حاضری کی اجازت کے طلب گار ہیں آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو یہ دونوں کس مقصد سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا مجھ کو معلوم نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں، جاؤ ان دونوں کو اندر بلا لاؤ چناچہ دونوں حضرات اندر آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ! ہم آپ کی خدمت میں یہ سوال لے کر آئے ہیں کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے کون شخص آپ ﷺ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ بنت محمد ﷺ مجھ کو زیادہ محبوب ہے ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا تعلق آپ کے گھر والوں یعنی اولاد و ازواج سے نہیں ہے (بلکہ آپ کے دوسرے اقا رب و متعلقین سے ہے) آپ نے فرمایا میرے گھر والوں میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ عزیز و محبوب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام و فضل کیا اور میں نے بھی اس کو انعام و احسان سے نواز اور وہ اسامہ بن زید ؓ ہے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ نے پوچھا پھر اسامہ ؓ کے بعد کون شخص (آپ ﷺ کو زیادہ محبوب و عزیز ہے) آپ ﷺ نے فرمایا پھر علی بن ابی طالب (یہ سن کر) حضرت عباس ؓ بولے یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے اپنے چچا (یعنی مجھ کو) اپنے گھر والوں میں آخر میں رکھا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا علی ؓ نے ہجرت میں تم پر سبقت کی ہے (ترمذی) اور روایت ان عم الرجل صنو ابیہ (جو حضرت عباس ؓ کی منقبت میں ہے) پیچھے کتاب الزکوۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام و فضل کیا ہے اور میں نے بھی اللہ تعالیٰ کے انعام و فضل سے تو مراد قبول اسلام کی توفیق ملنا ہدایت و راستی کی دولت سے سرفراز ہونا اور عزت و اکرام کا ملنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے انعام و احسان ہیں سے مراد خلعت آزادی سے سرفراز ہونا، متبنی رسول کا شرف حاصل ہونا اور پروردہ تربیت یافتہ رسول کا اعزاز ملنا ہے جاننا چاہئے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے یہ وہ انعام و احسان ہیں جو اصل میں تو حضرت اسامہ ؓ کے والد حضرت زید ؓ کی نسبت ہے قرآن کریم میں مذکور ہیں لیکن باپ کو حاصل ہونے والے انعامات چونکہ اس کے بیٹے تک بھی بہر صورت پہنچتے ہیں اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ نے اس آیت کریمہ اگرچہ زید کے حق میں نازل ہوئی ہے مگر اس میں جن انعامات کا ذکر ہے وہ زید کو حاصل تھے ہی لیکن زید کا بیٹا اور اس کا تابع ہونے کی حیثیت سے وہ انعامات اسامہ کو بھی حاصل ہیں اور اسی لئے دونوں ہی باپ بیٹا مجھ کو زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔ پھر علی بن ابی طالب ؓ یعنی آپ ﷺ نے اپنے نزدیک عزیز و محبوب ہونے میں حضرت علی ؓ کو حضرت اسامہ ؓ کے بعد درجہ دیا اور یہ اہل سنت و جماعت کے اس مسلک کی واضح دلیل (نص جلی) ہے کہ زیادہ عزیز و محبوب ہونا افضلیت کے مترادف نہیں ہے، یعنی جو شخص اسامہ ؓ سے افضل ہیں، علاوہ ازیں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کے زیادہ عزیز اور محبوب ہونا کی جو وجہ بیان فرمائی اس کی بنا پر یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ محبت وتعلق میں آنحضرت ﷺ کے نزدیک حضرت اسامہ ؓ کو حضرت علی ؓ پر علی الاطلاق فوقیت و ترجیح حاصل تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں تعدد وجوہ و حیثیات کا اعتبار مدنظر رکھنا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت اسامہ ؓ تو بسبب خدمت گزاری وغیرہ کے زیادہ محبوب تھے اور حضرت علی ؓ قرابت اور علم و فضل کے اعتبار سے زیادہ محبوب تھے، پس آنحضرت ﷺ بعض جہات سے حضرت اسامہ ؓ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے اور بعض جہات سے حضرت علی ؓ کو آپ ﷺ نے اپنے چچا کو۔ حضرت عباس ؓ کا مطلب یہ تھا کہ اب اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ پھر علی ؓ کے بعد اہل بیت میں سے کون شخص آپ ﷺ کو عزیز و محبوب ہے، تو یقینا آپ کا جواب میرے بارے میں ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ میرا درجہ علی ؓ کے بھی بعد کا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے واضح کیا کہ تم سے پہلے علی ؓ کا میرے نزدیک زیادہ عزیز و محبوب ہونا قرابت و رشتہ داری کے کسی طبعی تقاضہ کی بناء پر نہیں بلکہ ان کی اس فضیلت کی بناء پر ہے کہ انہوں نے جس طرح قبول اسلام میں تم پر سبقت حاصل کی تھی اسی طرح ہجرت میں بھی ان کو تم پر سبقت حاصل ہے۔ اس کی نظیر وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک روز حضرت عباس ؓ، حضرت ابوسفیان ؓ، حضرت بلال حبشی ؓ اور حضرت سلمان فارسی ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، کے ہاں آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی، خادم نے اندر جا کر حضرت عمر فاروق ؓ عنہ، کو ان حضرات کی آمد کی اطلاع دی اور پھر باہر آ کر بولا کہ (پہلے) بلال کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ حضرت ابوسفیان ؓ (کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ میری اور عباس کی موجودگی میں پہلے بلال کو اندر جانے کی اجازت کیسے مل گئی چناچہ وہ) حضرت عباس ؓ سے بولے کہ تم نے دیکھا، عمر آزاد کردہ غلاموں کو ہم پر فوقیت دیتے ہیں، حضرت عباس ؓ نے جواب دیا کہ ہم (قبول اسلام اور ہجرت میں) جو پیچھے رہ گئے تھے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔
Top