مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6147
وعن يعلى بن مرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : حسين مني وأنا من حسين أحب الله من أحب حسينا حسين سبط من الأسباط رواه الترمذي
حسنین سے کمال محبت کا اظہار
اور حضرت یعلی بن مرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں اور جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے۔ (ترمذی)

تشریح
ایک شارح نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ جس وقت یہ الفاظ ارشاد فرما رہے تھے اس وقت آپ ﷺ نے گویا نور نبوت سے اس المیہ کے پہلے ہی ادراک کرلیا تھا جو تقریبا نصف صدی بعد یزیدیوں کی طرف سے حضرت حسین ؓ کی شہادت کی صورت میں پیش آنے والا تھا۔ لہذا آپ نے اس ارشاد گرامی میں خاص طور صرف حضرت حسین ؓ کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ میں اور میرا حسین ؓ ایک جان دو قالب ہیں ہم دونوں کے درمیان ایسا جسمانی و روحانی قرب و اتصال ہے کہ جس طرح مجھ سے محبت رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح حسین سے محبت رکھنا واجب اور جس طرح مجھ سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور مجھ سے لڑنا حرام ہے۔ اسی طرح حسین سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور حسین سے لڑنا حرام ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی کیونکہ حسین سے محبت رکھنا رسول ﷺ سے محبت رکھنا اور رسول سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا ہے واضح ہو کہ احب اللہ میں اگر ہ کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہوا اور اگر ہ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ (جس شخص نے حسین سے محبت رکھی) اس سے اللہ تعالیٰ محبت رکھے گا۔ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے یعنی حسین میرا بیٹا ہے۔ سبط (س کے زیر کے ساتھ) کا ماخذ اصل میں سبط ہے اور سبط اس درخت کو کہتے ہیں جس کی جڑ تو ایک ہو مگر اس کی شاخیں بہت ہوں۔ پس گویا درخت کی مانند ہو اور اولاد اس کی شاخوں کی مانند۔ بعض حضرات نے سبط من الاسباط کے معنی یہ لکھے ہیں کہ حسین امتوں میں سے ایک امت ہے خیر و بھلائی اور شرف وسعادت کے اعتبار سے ایک پوری امت کے برابر ہے ایک شارح لکھتے ہیں سبط کا لفظ ولد کے معنی میں ہے اس صورت مذکورہ میں جملہ کا ترجمہ یہ ہوگا کہ حسین میری اولاد ہے سبط کے ایک معنی قبیلہ کے بھی آتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ایک آیت ہے (وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا) 7۔ الاعراف 160) (یعنی! اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں یا قبیلوں میں تقسیم کردیا) اس معنی کی مناسبت سے کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ سے شاید یہ مراد ہو کہ حسین ایک قبیلہ اور بڑی نسل کے مورث بنیں گے، اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں بہت برکت دے گا اور ان کی اولاد سلسلہ در سلسلہ نہ صرف یہ کہ بہت پھیلے گی بلکہ قائم و باقی رہے گی چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت حسین ؓ کی نسل بہت پھیلی، بہت بڑھی، ان کی اولاد میں بیشمار صحیح النسب سادات موجود ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ سبط س کے زیر اور ب کے جزم کے ساتھ) کے معنی ہیں اولاد (یعنی بیٹے یا بیٹی) کی اولاد۔ اسباط اسی کی جمع ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ساری اولاد کو اسباط کہا جاتا ہے۔ در اصل یہودیوں کے لئے اسباط کا لفظ معنی مستعمل ہوتا ہے جس معنی میں عرب کے لئے قبیلہ کا لفظ۔ اور سبط ب کے زبر کے ساتھ) کے معنی اس درخت کے ہیں جس کی ڈالیاں اور شاخیں بہت ہوں اور جڑ ایک ہو۔ پس حضرت حسن ؓ کو سبط سے تعبیر کرنا اس طرف اشارہ ہے ان کی نسل سے بیشمار لوگ پیدا ہوں گے۔
Top