مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6146
وعن بريدة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعثران فنزل رسول الله صلى الله عليه و سلم من المنبر فحملهما ووضعهما بين يديه ثم قال : صدق الله [ إنما أموالكم وأولادكم فتنة ] نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي
حسنین سے کمال محبت کا اظہار
اور حضرت بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین آگئے وہ دونوں سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے اور (کم سنی ناطاقتی کے سبب) اس طرح چل کر آ رہے تھے کہ گر گرپڑتے تھے چناچہ رسول کریم ﷺ (ان کو دیکھ کر منبر سے اتر آئے اور ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر ان کو اپنے پاس بٹھا کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے کہ آیت (انما اموالکم واولادکم فتنۃ) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا (کہ ان سے چلا نہیں جا رہا ہے اور) گرتے پڑتے چلے آ رہے ہیں تو (ان کی محبت میں) مجھ کو صبر نہ ہوسکا اور میں نے اپنی بات دینی وعظ و نصیحت اور بیان احکام و مسائل کا سلسلہ منقطع کیا اور منبر سے اتر کر) ان کو گود میں اٹھا لیا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)

تشریح
آنحضرت ﷺ کا خطبہ کے درمیان منبر سے اتر کر حسنین کو اٹھانا دراصل ایک ایسا عمل تھا جس کا تحرک شفقت و ترحم اور رقت و محبت کا وہ جذبہ تھا جو ان شاہزادوں کو اس حال میں دیکھ کر قلب نبوت میں امنڈ آیا تھا چونکہ اولاد اور بچوں پر شفقت و مہربانی کرنا ایک مستحسن و مستحب اور پسندیدہ حق چیز ہے اور خطبہ کے دوران خطیب کا کچھ لمحات کے لئے کسی نیک عمل کی طرف متوجہ ہوجانا جائز ہے اس خطبہ کے دوران آنحضرت ﷺ کے اس عمل کو تداخل فی العبادات کی ایک قسم کہا جائے گا آپ ﷺ نے اپنے اس عمل کو جو عذر بیان فرمایا وہ ایک تو کسر نفسی کے تحت تھا۔ دوسرے سامعین و حاضرین کو متنبہ کرنا بھی مقصود تھا کہ میرے اس عمل کو مستقل میں دلیل بنا کر خود کو عادی نہ بنالیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جب میں نے ایسا کیا ہے تو ہر شخص جب چاہے ایسا کرسکتا ہے۔
Top