اسامہ بن زید کو آپ ﷺ کا امیر لشکر بنانا
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک فوج روانہ کی اور اس پر اسامہ بن زید ؓ کو امیر بنا کر بھیجا تو کچھ لوگوں نے اس کی امارت پر طعنہ زنی کی پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم لوگ اس (اسامہ) کی امارت پر معترض ہوئے ہو تو اس سے پہلے تم اس کے باپ (زید) کی امارت پر بھی طعنہ زنی (اور اعتراض) کرچکے ہو اور اللہ کی قسم وہ (زید) امارت کے قابل بھی تھا اور تمام لوگوں سے مجھے محبوب و عزیز تر بھی تھا اور اس کے بعد یہ (اسامہ) بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و عزیز تر ہے بخاری ومسلم اور مسلم کی ایک روایت میں اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ بھی کہ لوگوں میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ یقینا یہ تمہارے نیک لوگوں میں سے ہے۔
تشریح
طعنہ دینے اور اعتراض کرنے والے لوگ یا تو منافق تھے جن کا شیوہ ہی یہ تھا کہ وہ کوئی موقع ہاتھ آنے کی انتظار میں رہتے تھے اور جہاں انہیں کوئی موقع ملا زبان کو بےلگام کردیا اور یا پھر طعنہ دینے والے نو مسلم تھے جو زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں کے عادی چلے آئے تھے اور ان کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت صلاحیت و علمی و عملی قابلیت کی بجائے خاندانی وجاہت اور اہل و دولت کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی تھی۔ اسامہ کے باپ حضرت زید بن حارثہ ؓ نہایت جلیل القدر صحابی اور سابق الایمان بزرگ تھے آنحضرت ﷺ کو ان سے بےحد محبت تھی اور ذاتی طور پر بھی وہ نہایت قابل شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی عسکری صلاحیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب بھی کوئی فوج روانہ کی جس میں زید بن حارثہ ؓ کو روانہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں امیر ہی بنا کر روانہ کیا۔ ٨ ھ میں شام کی سرحد پر رومی افواج جمع ہوچکی تھیں اس لئے آپ ﷺ نے ایک فوج اس طرف روانہ کی اور اس پر حضرت زید ؓ کو امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ یہ شام گئے نصرانی کفار سے مقابلہ ہوا حضرت زید ؓ، حضرت جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوئے اس جنگ کو جنگ موتہ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر لوگوں نے حضرت زید ؓ کی امارت پر اعتراض کیا تھا اگلے سال آپ نے حضرت زید ؓ شہید کے صاحبزادے حضرت اسامہ ؓ کو امیر فوج بنا کر سرحد پر روانہ کیا تو کچھ لوگوں نے پھر اعتراض کیا اور اس بات کو اعتراض کی بنیاد بنایا کہ ایک تو کم سن ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے والدین پر غلامی کی حالت گزر چکی ہے بالخصوص جب منافقین نے یہ دیکھا کہ اسامہ ؓ کی ماتحتی میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابی موجود ہیں تو انہیں اور بھی اعتراض کا موقع ہاتھ آگیا۔ انہیں کیا معلوم کہ اسلام رنگ و نسل و مال و دولت کے تمام عارضی امتیازات کو مٹا کر شرافت و بزرگی کی بنیاد پر ذاتی قابلیت، علم و عمل اور تقوی و پرہیزگاری و اعلیٰ اخلاق کو قرار دیتا ہے اللہ کی قسم وہ امارت کے قابل تھے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت تقویٰ و پرہیزگاری سبقت اسلام اور میری اطاعت و محبت کی بنیاد پر یقینا امارت کے اہل اور سیادت کے لائق تھے اور ان کے بعد اسامہ ؓ بھی اس قابل ہیں کہ انہیں ملکی مہمات اور اہم خدمات پر مامور کیا جائے کہ وہ بھی اپنے باپ کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز اور میرے نزدیک اس عہدہ کے قابل اور زیادہ قابل وثوق ہیں۔