مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6122
وعن أبي بكرة قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم على المنبر والحسن بن علي إلى جنبه وهو يقبل على الناس مرة وعليه أخرى ويقول : إن ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين . رواه البخاري
امام حسن کی فضیلت
اور حضرت ابوبکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا کہ حسن بن علی ؓ آپ ﷺ کے (دائیں یا بائیں) پہلو میں تھے کبھی تو آپ ﷺ (وعظ و نصیحت میں تخاطب کے لئے) لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی (پیار و محبت بھری نظروں سے) حسن بن علی ؓ کی طرف دیکھنے لگتے اور فرماتے کہ یہ میرا بیٹا سید ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ (بخاری )

تشریح
سید کے معنی اس شخص کے ہیں جو نیکی میں فائق ہو اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ سید اس شخص کو کہتے ہیں جو غصہ سے مغلوب نہ ہوتا ہو یعنی حلیم الطبع ہو ویسے سید کا اطلاق کئی معنوں پر ہوتا ہے مثلا مربی، مالک، شریف، فاضل، کریم، حلیم، اپنی قوم کی ایذاء پر تحمل کرنے والا، رئیس، سردار اور پیشواء۔ دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا، یہ ارشاد نبوت دراصل ان واقعات و حالت کی سچی پیش گوئی تھا جو حضرت علی ؓ کی خلافت کے ظہور پذیر ہوئے۔ اس وقت ملت اسلامیہ کا بڑا حصہ واضح طور پر دو طبقوں میں بٹ گیا تھا ایک طبقہ حضرت امام حسن ؓ کی خلافت و امارت کا قائل تھا اور دوسرے طبقہ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی امارت و حکمرانی کو تسلیم کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں خلافت و امارت کے سب سے بڑے حقدار حضرت حسن ؓ ہی تھے کیونکہ نہ صرف ذاتی، نسبی اور دینی عظمت و حشمت و بزرگی اور فضیلت و برتری ان کو حاصل تھی اور جس کی ایک بڑی دلیل یہی حدیث ہے کہ لسان نبوت نے ان کو سید فرمایا بلکہ ملی و سیاسی سطح پر بھی ان کو زبردست حمایت و طاقت حاصل تھی اور چالیس ہزار جوان مردوں کا لشکر جان کی بازی لگا دینے کا عہد کر کے اور امیر معاویہ سے لڑنے مارنے مرنے کا حلف اٹھائے ہوئے ان کی پست پر تھا، لیکن اس استحقاق اور طاقت کے باوجود انہوں نے محض اس خوف سے کہ نانا جان کی امت افتراق و انتشار اور باہمی خونریزی کا شکار ہوجائے گی، حکمرانی اور ملکی و دنیاوی سیادت کو ٹھکرا دیا اور آخرت کی فلاح و کامرانی کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا چناچہ انہوں نے کسی کمزوری کے تحت نہیں، بلکہ اتحاد امت کے مقصد کے تحت اپنی مرضی اور خوش دلی کے ساتھ امیر معاویہ ؓ سے صلح کرلی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے حضرت امام حسن ؓ اس زمانہ میں فرمایا کرتے تھے، اللہ کی قسم، مجھ کو یہ گوارا نہیں کہ امت محمدیہ میں سے کسی کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے۔ امت کو خونزیزی سے بچانے کے لئے خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ حضرت امام حسن ؓ کے بہت سے ساتھیوں کے لئے ناقابل قبول تھا، بعض انتہا پسندوں نے سیدنا حسن ؓ کو اس حد تک ملامت بنایا کہ ان کی مجلس میں پہنچ کر ان کو یوں مخاطب کرتے اسلام علیک یا عار المؤمنین۔ اور سیدنا حسن ؓ نہایت تحمل و بردباری کے ساتھ ان سے فرماتے العار خیر من النار اور سیدنا حسن ؓ نہایت و بردباری کے ان سے فرماتے العار خیر من النار (عار، نار سے بہتر ہے) حضرت حسن ؓ کے حق میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی (اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں ہی فرقے (یعنی امیر معاویہ کے پیرو اور سیدنا علی ؓ اور ان کے بعد سیدنا حسن ؓ کے پیرو) ملت اسلامیہ کا جزاء اور مسلمان تھے باوجودیکہ ان میں سے ایک فرقہ مصیب تھا اور ایک مخطی۔ نیز سیدنا حسن ؓ کا امیر معاویہ ؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوجانا اور ان سے صلح کرلینا اہل سنت و جماعت کے نزدیک اس امر کی دلیل ہے کہ اس صلح کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت و امارت شرعی طور پر قانونی اور جائز تھی یہاں یہ انتباہ ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جو کچھ ہوا یعنی صحابہ کے درمیان اختلاف و نزاع کی جو صورت پید اور بعض مواقع پر ان کے درمیان جنگ و جدل کی جو نوبت آئی اور جس کو مشاجرات صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بارے میں تمام سلف اور بزرگان دین نے ہمیشہ اپنی زبان بند رکھی صحابہ ؓ کی مقدس ہستیوں کو ہدف بنانا تو کجا، ان سے متعلق ان واقعات و حالات کو تنقید و تبصرہ کا موضوع بنانا بھی اسلاف میں عالم اور بزرگ کر گوارہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان کے خون سے دور رکھا ہے تو پھر ہم اپنی زبانوں کو ان پر تنقید و تبصرہ اور ان کی نکتہ چینی سے کیوں ملوث کریں۔ بہر حال سیدنا حسن ؓ کا فضل و شرف اس بات سے عیاں ہے کہ سرکار دو عالم نے ان کو سید فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے میں مشغول ہوتے تھے کہ حسن ؓ عنہ، جو اس وقت چھوٹے سے تھے، مسجد میں آجاتے اور جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں جاتے تو وہ آپ ﷺ کی گردن اور پیٹھ پر چڑھ جاتے تھے۔ پھر آنحضرت ﷺ سجدہ سے سر اس قدر آہستگی اور احتیاط سے اٹھاتے کہ حسن نیچے اتر جاتے (ایک دن) بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم آپ ﷺ کو اس منے کے ساتھ وہ معاملہ کرتے دیکھتے ہیں جو کسی اور کے ساتھ کرتے نہیں دیکھا! آپ ﷺ نے جواب دیا یہ منا میری دنیا کا پھول ہے، بلاشبہ میرا یہ بیٹا سید ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان صلح کرائے گا اور امام احمد نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حسن ؓ کی زبان یا ان کے ہونٹ چوسا کرتے تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس زبان یا ہونٹ کو عذاب سے ہرگز دو چار نہیں کرے گا جس کو رسول اللہ ﷺ نے چوسا ہو۔
Top