مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6114
وعن المسور بن مخرمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني وفي رواية : يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها . متفق عليه
جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھ کو خفا کیا
اور حضرت مسور ابن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا اور ایک روایت میں یہ لفظ (بھی) ہیں جو چیز فاطمہ کو بری معلوم ہوتی ہے وہ مجھ کو بھی بری معلوم ہوتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو دیکھ دیتی ہے وہ مجھ کو بھی دکھ دیتی ہے۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
اس نے مجھ کو خفا کیا یعنی فاطمہ چونکہ میرے گوشت پوست کا ایک حصہ ہے اور اس اعتبار سے میرے اور اس کے درمیان جو یگانگت اور یک پن ہے اس کی بناء پر فاطمہ کو خفا کرنا، یا فاطمہ کو دکھ پہنچانا گویا مجھ کو خفا کرنا اور دکھ پہنچانا ہے۔ پس اس ارشاد گرامی میں دراصل اس طرح کی بلیغ تشبیہ ہے اور اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ بعض علماء کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا ناموزوں ہے کہ جس نے فاطمہ کو برا کہا وہ کافر ہوگیا، کیونک اس طرح کی احادیث کا اصل محمول کمال اتحاد و اختلاط اور نہایت تعلق کا اظہار ہے چناچہ اسی قبیل سے وہ روایت بھی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کو دکھ دیا اس نے گویا مجھ کو دکھ دیا اور جس نے مجھ کو دکھ دیا اس نے (گویا) اللہ تعالیٰ کو دکھ پہنچایا وہ روایت کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے انصار کو عزیز و محبوب رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو عزیز و محبوب رکھا اور جس شخص نے انصار سے دشمنی رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھی۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد گرامی کہ قریش کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے نیز عربوں کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے، جس شخص نے عربوں کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس شخص نے عربوں سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔ وہ مجھ کو دکھ دیتی ہے بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام نے چاہا تھا کہ ابوجہل کی بیٹی غورا کا نکاح حضرت علی ؓ سے کردے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ خود حضرت علی کی خواہش تھی کہ غوراء سے نکاح کریں بہرحال جب اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے طلب اجازت کا مرحلہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس بات کی اجازت کبھی نہیں دوں گا اور پھر یہ حدیث ارشاد فرمائی، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار نہیں دیتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اللہ کی دوست کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز یکجا نہیں ہوسکتیں۔ حضرت علی نے آنحضرت ﷺ کے یہ سخت تاثرات سنے تو فورا خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اظہار معذرت کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں وہ کام کبھی نہیں کروں گا جو آپ ﷺ کو پسند نہ ہو۔ واضح ہو کہ حضرت مسور کی یہ حدیث مختلف طرق سے منقول ہے، چناچہ ایک روایت میں اس حدیث کو اس طرح نقل کیا گیا ہے حضرت مسور کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر کھڑے ہوئے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہشام ابن مغیرہ کے بیٹے حارث مجھ سے اس بات کی منظوری چاہتے تھے کہ ابوجہل کی بیٹی کا نکاح علی ابن طالب سے کردیں لیکن میں اس بات کو منظور نہیں کرتا اور مکرر کہتا ہے ہوں کہ میں منظور نہیں کروں گا ہاں اگر ابن ابی طالب نے ارادہ ہی کرلیا ہے تو وہ میری بیٹی کو طلاق دیدیں اور ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا۔
Top