مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6111
وعن عائشة : قالت : كنا - أزواج النبي صلى الله عليه و سلم - عنده . فأقبلت فاطمة ما تخفى مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما رآها قال : مرحبا بابنتي ثم أجلسها ثم سارها فبكت بكاء شديدا فلما رأى حزنها سارها الثانية فإذا هي تضحك فلما قام رسول الله صلى الله عليه و سلم سألتها عما سارك ؟ قالت : ما كنت لأفشي على رسول الله صلى الله عليه و سلم سره فلما توفي قلت : عزمت عليك بما لي عليك من الحق لما أخبرتني . قالت : أما الآن فنعم أما حين سار بي في الأمر الأول فإنه أخبرني : أن جبريل كان يعارضه بالقرآن كل سنة مرة وإنه قد عارضني به العام مرتين ولا أرى الأجل إلا قد اقترب فاتقي الله واصبري فإني نعم السلف أنا لك فلما رأى جزعي سارني الثانية قال : يا فاطمة ألا ترضين أن تكوني سيدة نساء أهل الجنة أو نساء المؤمنين ؟ وفي رواية : فسارني فأخبرني أنه يقبض في وجعه فبكيت ثم سارني فأخبرني أني أول أهل بيته أتبعه فضحكت . متفق عليه
حضرت فاطمہ کی فضیلت
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کی بیویاں (آپ کے مرض الموت سے کچھ ہی پہلے ایام مرض الموت کے دوران ایک دن) آپ ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ فاطمہ آئیں۔ ان کی چال کی وضع اور ہیت رسول کریم ﷺ کی چال کی وضع اور ہیت رسول ﷺ کی چال کی واضع اور ہیت سے (ذرا بھی) مختلف نہیں تھی (یعنی آنحضرت ﷺ کے چلنے کا انداز اس قد ر یکساں تھا کہ کوئی بھی ان دونوں کی چال میں امیتاز نہیں کرسکتا تھا) بہرحال آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو (آتے) دیکھا تو فرمایا میری بیٹی مرحبا پھر آپ ﷺ نے ان کو (اپنے پاس) بٹھا لیا اور چپکے چپکے ان سے باتیں کیں، اتنے میں فاطمہ رونے لگیں اور زور زور سے رزئیں۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ فاطمہ بہت رنجیدہ ہوگئی ہیں تو پھر ان سے سرگوشی کرنے لگے اور فاطمہ اکدم کھلکھلا کر ہنس دیں پھر جب رسول اللہ ﷺ (استنجاء وغیرہ کے لئے یا نماز پڑھنے کے لئے وہاں سے) اٹھکر چلے گئے تو میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ تم سے آنحضرت ﷺ سے چپکے چپکے کیا باتیں کررہے تھے؟ فاطمہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا راز افشاء کرنے والی نہیں ہوں (اس وقت تو میں خاموش ہوگئی لیکن) جب آنحضرت ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو (ایک دن) میں نے فاطمہ سے کہا کہ (ایک ماں ہونے کی حیثیت سے یا دینی اخوت اور باہمی محبت وتعلق رکھنے کے اعتبار سے) تم پر میرا جو حق ہے اس کا واسطہ اور قسم دے کر کہنا چاہتی ہوں کہ میں تم سے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگتی کہ مجھ کو اس سرگوشی کے بارے میں بتادو جو ( اس دن) آنحضرت ﷺ نے تم سے کی تھی فاطمہ بولیں ہاں اب (جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں اس راز کو ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے ہوئے) میں بتاتی ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے جو پہلی بار مجھ سے سرگوشی کی تھی تو اس میں مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) مجھ سے سال بھر میں ایک مرتبہ (یعنی رمضان میں) قرآن کا دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال (رمضان میں) انہوں نے مجھ سے دو بار دور کیا اور اس کا مطلب میں نے یہ نکالا ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے، پس (اے فاطمہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتی رہنا (یعنی تقویٰ پر قائم رہنا یا یہ کہ جہاں تک ہو سکے زیادہ تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنا) اور (اللہ کی اطاعت و عبادت میں مشغول رہنے اور معصیت سے بچنے کے لئے جو بھی تکلیف اور مشقتیں اٹھا نا پڑیں اور جو بھی آفت وحادثہ پیش آئے خصوصا میری موت کے سانحہ پر) صبر کرنا، بلاشبہ میں تمہارے لئے بالخصوص) بہترین پیش روہوں (یہ تو وہ بات تھی جس کو سن کر اور آنحضرت ﷺ کی جدائی کا احساس کرکے) میں رونے لگی تھی اور پھر جب آپ ﷺ نے مجھ کو زیادہ مضطرب اور بےصبر پایا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور اس وقت یوں فرمایا اے فاطمہ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم جنت میں (تمام) عورتوں یا (خاص طور پر اس امت کی عورتوں کی سردار بنائی جاؤ (یہ سن کر میں ہنسنے لگی تھی) اور ایک روایت میں حضرت فاطمہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ جب آپ ﷺ نے (پہلی مرتبہ) مجھ سے سرگوشی کی تو اس میں یہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے اور (یہ سن کر) میں رونے لگی تھی، (دوسری مرتبہ) آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کی اس میں مجھ کو یہ بتایا تھا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ہی آپ ﷺ سے جا کر ملوں گی (یعنی یہ تسلی دی تھی کہ مضطرب نہ ہوٍ، میری وفات کے بعد بہت جلد تم بھی اس دنیا سے رخصت ہو کر میرے پاس آجاؤ گی) چناچہ (یہ سن کر) میں ہنسنے لگی تھی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
راز میں افشا کرنے والی نہیں ہوں یعنی جس بات کو آنحضرت ﷺ نے چھپایا اس کو میں کیسے ظاہر کردوں کیونکہ اگر آپ ﷺ کے نزدیک اس بات کا اظہار مناسب ہوتا تو مجھ کو چپکے چپکے نہ فرماتے بلکہ سب کے سامنے اونچی آواز میں فرماتے اس سے معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں، عزیزوں اور دوستوں کا راز دوسروں سے چھپانا مستحب ہے۔ دوبار دور کیا) یعنی سال بھر میں جتنا قرآن نازل ہوتا تھا اس سب کا دور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رمضان میں آنحضرت ﷺ سے کرتے تھے تاکہ اول تو آپ ﷺ کے ذہن میں قرآن ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کے ساتھ پوری طرح محفوظ رہے اور دوسرے یہ ظاہر ہوجایا کرے کہ کون سی آیت ناسخ ہو کر نازل ہوئی ہے اور کون سی آیت منسوخ ہوگئی ہے حدیث کے اس اجزاء سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ قرآن کا دور (یعنی دو حافظوں کا ایک دوسرے کو قرآن حفظ سنانا مستحب ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی عمر کے آخری رمضان کے بعد ارشاد ہوئی تھی۔ اس کا مطلب میں نے نکالا ہے یعنی! جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سال معمول کے خلاف جو دو بار دور کیا ہے وہ اس بات کی آگاہی ہے کہ قرآن کی صورت میں نزول ہدایت کا سلسلہ پایہ اتمام کو پہنچ گیا ہے اور تکمیل دین کی سرفرازی ونعمت عطا ہوگئی ہے۔ لہٰذا اب قرآن کو ذہن میں پوری طرح محفوظ کرلینا چاہئے اور اس کے احکام خوب یاد کرلینے چاہیئں۔ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو یعنی یہ بات جان کر کہ میں اس دنیا سے جلد ہی رخصت ہونے والا ہوں تمہیں تنگ دل اور مضطرب نہیں رہنا چاہئے، اللہ کے حکم اور فیصلہ پر راضی رہو اور اس بات پر اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اتنا بڑا رتبہ اور اعزاز عطا کیا ہے۔
Top