مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6109
وعن عائشة قالت : خرج النبي صلى الله عليه و سلم غداة وعليه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن علي فأدخله ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء علي فأدخله ثم قال : [ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ] رواه مسلم
آیت قرآنی میں مذکور " اہل بیت " کا محمول ومصداق
اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن صبح کو نبی کریم ﷺ تشریف لائے، اس وقت آپ ﷺ کے بدن مبارک پر ایک سیاہ بالوں کی کملی تھی جس پر اونٹ کے کجاو وں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں اتنے میں حسن ابن علی، آگئے اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی کملی کے اندر لے لیا پھر حسین آئے اور آپ ﷺ نے ان کو بھی حسن کے ساتھ کملی کے اندر لے لیا، پھر فاطمہ آئیں اور آپ ﷺ نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر علی آئے اور آپ ﷺ نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) 33۔ الاحزاب 33) (یعنی اے اہل بیت) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم کو (گناہوں اور برائیوں کی) پلیدی (اور غیر اخلاقی وغیر انسانی باتوں کے میل کچیل میں آلود ہونے) سے بچائے (جیسا کہ اکثر لوگ آلودہ ہوجاتے ہیں) اور تم کو ایسا پاک صاف رکھے جیسا کہ پاک صاف رہنا چاہئے۔ ( مسلم)

تشریح
اس آیت کا سیاق وسباق پوری وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس سے پہلی میں بھی ینسآء النبی لستن کا حد من النسآء کے ذریعہ ازواج مطہرات ہی کو خطاب کیا گیا ہے اور بعد کی آیت میں بھی واذکرن ما یتلی فی بیوتکن میں بھی انہی کا ذکر ہے۔ رہی یہ بات کہ پھر عنکم الرجس میں جمع مذکر کی ضمیر کیوں لائی گئی ہے تو اس کی وجہ یا تو اظہار عظمت ہے یا اہل بیت کے مردوں کی فوقیت و برتری کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
Top