مشکوٰۃ المصابیح - عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6102
وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول لنسائه : إن أمركن مما يهمني من بعدي ولن يصبر عليكن إلا الصابرون الصديقون قالت عائشة : يعني المتصدقين ثم قالت عائشة لأبي سلمة بن عبد الرحمن سقى الله أباك من سلسبيل الجنة وكان ابن عوف قد تصدق على أمهات المؤمنين بحديقة بيعت بأربعين ألفا . رواه الترمذي
حضرت عبدالرحمن بن عوف کی فضیلت
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی بیویوں سے فرمایا تمہارا معاملہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ مجھ میرے بعد کے فکر میں ڈالتا ہے اور تمہارے خرچہ پر وہی جو صبر کریں گے (صابر ہیں اور صدیق ہیں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ (صابر اور صدیق سے) آنحضرت ﷺ کی مراد وہ لوگ ہیں جو صدقہ دینے والے اور کار خیر کرنے والے ہیں پھر حضرت عائشہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بیٹے حضرت ابوسلمہ تابعی کے سامنے (ان کے والد بزرگوار کے زبردست مالی ایثار پر اظہار تشکر اور جذبہ منت گزاری کے تحت) کہا اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو جنت کی سلسبیل سے سیراب فرمائے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات (کے خرچہ) کے لئے ایک باغ دیا تھا جو چالیس ہزار دینار کو بیچا گیا تھا۔

تشریح
جو صابر ہیں یعنی وہ لوگ کہ جو اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنا مال اور اپنی دولت خرچ کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کے ذریعہ اس دنیا کی پونجی کو تو کم کرتے ہیں مگر آخرت کے سرمایہ میں اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح مال و دولت کے خرچ ہونے پر نفس کو جو ناگواری ہوتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔ صدیق ہیں یعنی وہ لوگ جو صدقہ معاملہ میں کامل ہیں، ادائے حقوق میں سب سے آگے ہیں اور جود وسخا میں کثیر الصدق ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات سے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اختیار دیا تھا کہ چاہے تو زوجیت رسول کے شرف کی صورت میں آخرت کو اختیار کرلو، چاہو آسائش و آرام کی زندگی گزارنے کی خاطر اس شرف کو چھوڑ دینا اختیار کرلو تو اس وقت تم نے اگرچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دی تھی اور میری رفاقت وزوجیت میں رہنے کے فیصلہ کو اس کامل یقین کے ساتھ برقرار رکھا تھا کہ اس عظیم ترین شرف و اعزاز کی خاطر دنیا کے بڑے مصائب اور بڑی سے بڑی سختی کو بھی خوش دلی سے انگیز کروگی، تاہم مجھ کو کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ تمہارے لئے میراث چھوڑ کر نہیں جارہا ہوں، نہ معلوم میری وفات کے بعد تمہیں کن حالات سے دوچار ہونا پڑے۔ تمہارے ساتھ لوگ کیا معاملہ اور کیسا سلوک رکھیں گے کون شخص تمہارے گزارے کا متکفل بنے گا اور کس شخص کو تمہاری خبر گیری کی توفیق نصیب ہوگی اور جو تمہارے مصارف کے لئے اپنے مال اور اپنی جائداد کا نذرانہ پیش کریں گے ان کا وہی مقام و مرتبہ ہوگا جو اللہ کے نزدیک صابر اور صدیق کا ہوتا ہے حضرت عائشہ نے ارشاد نبوت کے سیاق میں، صابر اور صدیق کے معنی بیان کئے اور پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف کے حق میں، ان کے بیٹے کے سامنے، جو دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے اس سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی وہ فضیلت ظاہر ہوئی جو انہوں نے ازواج مطہرات کے لئے اپنی بڑی ایک جائداد کا نذرانہ پیش کرکے اس حدیث کے مطابق حاصل کی۔ اللہ کی راہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی مالی قربانیاں حدیث بالا میں یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے باغ ازواج مطہرات کے لئے دیا تھا وہ چالیس ہزار دینار کو بیچا گیا، لیکن ترمذی ہی کی ایک روایت میں، جس کو ترمذی نے حسن غریب کہا ہے یوں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ازواج مطہرات کے مصارف کے لئے اپنا پورا باغ اللہ کی راہ میں دیدیا تھا جو چار لاکھ درہم یا دینار کو بیچا گیا۔ یہ تو ابن عوف کی مالی قربانیوں کی صرف ایک مثال ہے، وہ بہت بڑے تاجر تھے اور وسیع بنیادوں پر پھیلی ہوئی اپنی تجارت کے ذریعہ جتنا زیادہ مال و اسباب پیدا کرتے تھے اتنا ہی اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان کی زندگی اور ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مطلقا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی تمام تر تجارت اور کسب مال کا مقصد ہی اللہ کی راہ میں اور دین کی سربلندی کے لئے خرچ کرنا تھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک مرتبہ اپنے آدھے مال و اسباب اور چار ہزار دینار یادرہم یا درہم نقد کا نذرانہ پیش کیا، پھر انہوں نے چالیس ہزار دینار تصدق کئے، پھر پانچ سوگھوڑے جہاد کے لئے اللہ کے کی راہ میں دئیے اور پھر جہاد ہی کے لئے اللہ کی راہ میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں پیش کیں اور ان تمام مال و اسباب میں سے اکثر حصہ ان کے تجارتی مال و سرمایہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک سو پچاس ہزار یعنی ڈیڑھ لاکھ دینار اللہ کی خوشنودی کے لئے صحابہ کرام کو دیئے، پھر جب رات آئی تو گھر میں قلم کاغذ لے بیٹھے اور اپنا تمال مہاجرین و انصار صحابہ میں تقسیم کرنے کے لئے ایک فہرست مرتب کی، اس فہرست میں انہوں نے اپنے بدن کے کپڑوں تک کے بارے میں لکھا کہ میرے بدن پر جو قمیص ہے وہ فلاح صاحب کے لئے ہے اور میرا عمامہ فلاں صاحب کے لئے اس طرح انہوں نے اپنے مال و اسباب میں سے کچھ باقی نہیں رہنے دیا، ایک ایک چیز حاجتمندوں کے نام لکھ دی، اس کام سے فارغ ہو کر سوگئے صبح ہوئی تو نماز فجر کے لئے مسجد پہنچے اور آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز ادا کی اتنے میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اے محمد ﷺ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبدالرحمن کو میری طرف سے سلام کہو اور وہ فہرست (جو انہوں نے آج رات میں بنائی ہے) ان سے قبول کرکے پھر ان کو واپس کردو اور ان سے کہو کہ اللہ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اس سارے مال و اسباب میں تم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے وکیل ہو، اپنی مرضی سے اس میں سے لین دین کرو اور اپنے سابقہ حق تصرف کے ساتھ چاہو خرچ کرو، اس کا تم سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا اس کے ساتھ ہی ان کو جنت کی بشارت عطا کی گئی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ انہوں نے تیس ہزار غلام آزاد کئے۔ پسماندگان میں انہوں نے چار بیویاں چھوڑی تھیں اور منقول ہے کہ ایک ایک بیوی کے حصہ میں اسی اسی ہزار درہم آئے تھے بلکہ ایک روایت میں یوں ہے کہ عبداللہ بن عوف کا تر کہ سولہ سہام پر تقسیم، ہوا اور ہر بیوی کے حصہ دو دو لاکھ درہم آئے۔
Top