مشکوٰۃ المصابیح - عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6091
سیدنا علی اور امیر معاویہ کا معاملہ
یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے درمیان جو محاذ آرائی اور جنگ وحصومت واقع ہوئی اس کو اجتہادی اختلاف) پر محمول کرنے چاہیے۔ حضرت علی نے دینی وشرعی طور پر اپنے خلافت کا مستحق سمجھا جبکہ امیر معاویہ اپنی خلافت کو برحق جانتے تھے، دونوں نے اپنے اپنے حق میں اجتہاد کیا یہ اور بات ہے کہ سیدنا علی کا اجتہاد درست ظاہر ہوا اور ثابت ہوگیا کہ اس وقت تمام لوگوں میں امت اسلامیہ کے سب سے بڑے آدمی اور سب سے افضل وہی تھے، ان کے برخلاف امیر معاویہ اپنے اجتہاد میں درست ثابت نہیں ہوئے کیونکہ حضرت علی کی موجودگی میں وہ خلافت کے ہرگز مستحق نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے مخالف فریق کو کافر نہیں کہا دونوں فریق الگ الگ جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے، دونوں کے درمیان زبر دست معرکہ آرائی بھی ہوئی، دونوں فریقوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک دوسرے کو برا بھی کہا، ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم بھی کیا مگر ان میں سے کسی نے کسی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا، اگرچہ ان میں سے بعض لوگ جہالت ونادانی اور تعصب میں مبتلا ہونے کے سبب ایسے امور کے مرتکب ہوئے جن سے ان کا گناہ گار ہونا یقینا ثابت ہوتا ہے، پس کسی مؤمن کو ہرگز روا نہیں کہ ان میں سے کسی کی بھی طرف کفر کی نسبت کرے اور ان کے بارے میں ایسا عقیدہ و خیال رکھے جو ایک مؤمن کے حق میں رکھ ہی نہیں سکتا۔
Top