مشکوٰۃ المصابیح - عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6087
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان على حراء هو وأبو بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير فتحركت الصخرة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اهدأ فما عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد . وزاد بعضهم : وسعد بن أبي وقاص ولم يذكر عليا . رواه مسلم
حرا پہاڑ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور پانچ شہید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر، حراء پہاڑ پر کھڑے تھے کہ (ان کے پیروں کے نیچے کا) پتھر حرکت کرنے لگا۔ رسول کریم ﷺ نے (اس پتھر کو مخاطب کرکے فرمایا ٹھہر جا تیرے اوپر کوئی دوسرا نہیں کھڑا ہے۔ یا نبی ہے یا صدیق ہے یا شہداء ہیں اور بعض راویوں نے اور سعد بن ابی وقاص کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے اور علی کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تشریح
شہداء سے مراد حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر تھے، چناچہ ان سب حضرات کو شہادت ہی کی موت ملی، ان میں سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جنگ جمل کے موقع پر شہیدکئے گئے اور اگرچہ ان کی موت عین جنگ کے دوران واقعہ نہیں ہوئی ہوئی تھی بلکہ جنگ سے باہر ظلما مارے گئے تھے لیکن چونکہ یہ ثابت ہے کہ جس شخص کو ظلما قتل کردیا جائے وہ شہید ہوتا ہے اس لئے ان دونوں کو بھی شہادت کا مرتبہ نصیب ہوا۔ اور علی کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے پہلے جملہ میں زاد کا لفظ کسی ناقل روایت کے تسامح کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ اس راوی کی روایت میں حضرت علی کے بجائے حضرت سعد بن ابی وقاص کا ذکر معاوضہ اور مبادلہ کی صورت ہے نہ کہ اضافہ کی۔ بہر حال اس ورایت میں، کہ جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا ذکر ہے۔ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ ان کو تو شہادت کی موت نہیں بلکہ وادی عقیق واقع اپنے محل میں فوت ہوئے تھے! اس اشکال کو دور کرنے کے لئے یا تو یہ توجیہ کی جائے گی کہ آپ ﷺ نے ان سب حضرات کو تغلیبا شیہدا فرمایا تھا گویا آپ ﷺ کی مراد یہ تھی ایک نبی اور ایک صدیق کے علاوہ باقی وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثر وبیشتر شہید ہوں گے یا جیسا کہ سید جمال الدین نے لکھا ہے، یہ کہا جائے گا کہ حضرت سعد کی موت کسی ایسے مرض کے سبب واقع ہوئی تھی جس میں مبتلا ہو کر مرنے والا شہید کے حکم میں ہوتا ہے، جیسے پیٹ کی بیماری وغیرہ۔۔
Top