مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6071
وعنه قال : كنت شاكيا فمر بي رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أقول : اللهم إن كان أجلي قد حضر فأرحني وإن كان متأخرا فارفعني وإن كان بلاء فصبرني . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كيف قلت ؟ فأعاد عليه ما قال فضربه برجله وقال : اللهم عافه - أو اشفه - شك الراوي قال : فما اشتكيت وجعي بعد . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح
وہ دعا جو مستجاب ہوئی
اور حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں سخت بیمار ہوگیا اور (حسن اتفاق سے) رسول کریم ﷺ میرے پاس سے گزر رہے تھے جب میں (مرض کی شدت سے بےتاب ہو کر بآوازبلند) یہ دعا مانگ رہا تھا الہٰی اگر میری موت کا وقت آپہنچا تو مجھ کو (موت دے کر مرض کی اذیت سے نجات اور ابدی) سکون عطاء فرما اور اگر ابھی وقت نہیں آیا ہے تو (صحت بحال کر کے مجھ کو راحت و کشادگی (یعنی صحت و تندرستی کی خوشی) عطا فرما اور اگر یہ بیماری امتحان و آزمائش ہے تو مجھے صبر و آزمائش کو برداشت کی قوت دے (تاکہ میں بےتابی وبے قراری کا اظہار نہ کروں) رسول کریم ﷺ نے (مجھے یوں دعا مانگتے سنا تو) فرمایا کہ تم کیا دعا مانگ رہے تھے؟ میں نے دعا کے الفاظ آپ ﷺ کے سامنے دوہرادئیے۔ آپ ﷺ نے (دعا کے الفاظ سننے کے بعد) اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا اور پھر یوں دعا فرمائی الہٰی! اس (علی) کو عافیت عطا فرما یا یہ فرمایا کہ اس کو شفا بخش یہ راوی کا اظہار شک ہے حضرت علی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی اس دعا کے بعد پھر مجھ کو وہ بیماری کبھی لاحق نہیں ہوئی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
فارفغنی ف کے زبر اور غین کم جزم ساتھ منقول ہے جو رفاغۃ سے ہے اور جس کے معنی کشادگی اور فراغت کے ہیں اور ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ عین کے ساتھ فارفغنی منقول ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا تاکہ وہ اس معاملہ میں اپنی غفلت پر متنبہ ہوں، حرف شکایت زبان پر لانے سے باز رہیں پائے مبارک کی ضرب کی برکت سے بہرمند ہوں اور ذات رسالت پناہ کی قدم بقدم کمال متابعت ان کو حاصل ہو۔ یہ راوی کا شک ہے یہ جملہ بعد کے کسی راوی کا ہے جس نے واضح کیا ہے کہ اس موقع پر پہلے راوی نے اپنا شک ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو اللہم عافہ (الہٰی) اس کو عافیت عطا فرما، کے ارشاد فرمائے تھے یا اللہم اشعفہ الہٰی! اس کو شفا بخش) کے الفاظ، بہرحال آنحضرت ﷺ کی اس دعا میں یہ تعلیم اور تلقین پوشیدہ ہے کہ مریض کو بس یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ! مجھ کو عافیت عطا فرمایا اے اللہ! مجھ کو شفا بخش دعا میں تردید کا پہلو اعتبار کرنا یعنی یوں کہنا کہ یا یہ کر یا وہ کر، جیسا کہ حضرت علی کی دعا تھی غیر مناسب بات ہے کیونکہ تردید کا پہلو ایک طرح سے جبر اور دباؤ کا مفہوم ظاہر کرتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ پر جبر کرنے اور دباؤ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔
Top