مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6068
وعن بريدة قال : خطب أبي بكر وعمر فاطمة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنها صغيرة ثم خطبها علي فزوجها منه . رواه النسائي
فاطمہ زہراء کا نکاح
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے فاطمہ سے نکاح کا پیغام دیا تو رسول کریم ﷺ نے کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے اور پھر جب حضرت علی نے فاطمہ سے اپنے نکاح کا پیغام دیا تو آپ ﷺ نے ان سے فاطمہ کا نکاح کردیا۔ (نسائی)

تشریح
کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے اور ایک روایت میں فسکت کے الفاظ ہیں، یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں کا پیغام آنے پر سکوت اختیار فرمایا کوئی جواب نہیں دیا پس ہوسکتا ہے کہ یہ جواب دینے کی صورت دوسری مرتبہ پیغام دینے پر پیش آئی ہو یعنی پہلی مرتبہ کے پیغام پر تو آپ ﷺ نے سکوت اختیار فرما لیا ہو اور جب انہوں نے دوسری مرتبہ پیغام دیا تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا ہو کہ فاطمہ کمسن ہے۔ پھر جب حضرت علی نے۔۔۔۔۔۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ام ایمن نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ فاطمہ کے لئے آنحضرت ﷺ سے تم کیوں نہیں درخواست کرکے دیکھتے، تم تو آنحضرت ﷺ کے چچا کے بیٹے ہو، تمہاری درخواست قبول ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ حضرت علی نے یہ سن کر جواب دیا آنحضرت ﷺ سے بات کہتے ہوئے مجھ کو حجاب آتا ہے پھر کسی ذریعہ سے یہ بات آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور جب حضرت علی کو آنحضرت ﷺ کی رضا مندی معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنی درخواست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کا نکاح ان سے کردیا۔ ایک اور روایت میں جو ابوالخیر قزوینی حاکمی نے حضرت انس بن مالک ؓ نقل کی ہے۔ حضرت فاطمہ کے نکاح کا واقعہ تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت ابوبکر نے فاطمہ کے لئے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی تو آپ ﷺ نے ان کو جواب دیا کہ اے ابوبکر! فاطمہ کے بارے میں ابھی تک فیصلہ الٰہی نازل نہیں ہوا پھر حضرت عمر نے اور بعض دوسرے قریش نے یہی درخواست اپنی طرف سے پیش کی تو آنحضرت ﷺ نے ان سب کو وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر کو پہلے دے چکے تھے، پھر بعد میں کچھ لوگوں نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ فاطمہ کے لئے اگر تم آنحضرت ﷺ سے درخواست کرو تو امید ہم کہ آنحضرت ﷺ ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردیں گے، حضرت علی نے کہا جب قریش کے معززین حضرات کی یہ درخواست شرف قبولیت نہیں پاس کی تو بھلا میں اپنی درخواست کے بارے میں کیسے امید رکھوں۔ آخر کار حضرت علی نے پیغام ڈال دیا اور ان کے پیغام پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے بزرگ و برتر پروردگار نے مجھ کو اس کا حکم دے دیا ہے۔ حضرت انس آگے بیان کرتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھ کو طلب کیا اور فرمایا کہ جاؤ اور ابوبکر، عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ، زبیر اور انصار کے فلاں فلاں کو میرے پاس بلالاؤ۔ انس کہتے ہیں کہ میں ان سب کو بلا لایا اور یہ حضرات آآ کر آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے، اس وقت حضرت علی کہیں کام سے گئے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا الحمد اللہ المحمود بنعمۃ المعبود بقدرتہ المطاع بسلطانہ المرہوب من عذابہ وسطوتہ النفذ امرہ فی سماہ وارضہ الذی خلق الخلق بقدرتہ ومیزہم باحکامہ واعزہم بدینہ واکرمہم بنبیہ محمد ﷺ ان اللہ تبارک وتعالیٰ اسمہ وعظمتہ جعل المصاہرۃ سببا لا حقاوامرامفترضا اوشج بہ الارحام والزمہ للانام فقال عزمن قائل وہو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصہرا وکان ربک قدیرا وامر اللہ تعالیٰ یجری الی قضاؤہ یجری الی قدرہ لکل قضاء قدرولکل قدر اجل ولکل اجل کتاب یمحو اللہ ما یشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ بنت خدیجہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردوں، پس تو لوگ گواہ رہو کہ میں نے فاطمہ سے علی کا نکاح چار سو مثقال چاندی پر کردیا ہے اگر علی راضی ہوں، پھر آپ ﷺ نے چھوہاروں کا ایک طباق منگا کر ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا کہ لوٹ لو، ہم نے وہ چھورہاے لوٹے ابھی ہم ان چھوہاروں کو لوٹ ہی رہے تھے کہ اچانک حضرت علی بھی آکر آنحضرت ﷺ کے قریب بیٹھ گئے، آپ ﷺ ان کو دیکھ کر مسکرائے اور پھر ان کو دیکھ کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا کہ تمہارے ساتھ فاطمہ کا نکاح چار سو مثقال چاندی پر کردوں، اگر تم راضی ہو، حضرت علی نے جواب دیا، یقینا میں اس پر راضی ہوں یا رسول اللہ ﷺ! اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے دعا فرمائی جمع اللہ شملکما واسعد جدکما وبارک علیکما واخرج منکما کثیرا طیبا۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو دلجمعی اور حسن رفاقت عطا کرے، تم دونوں کو نصیبہ ور بنائے، تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور تم دونوں کو نہایت پاکیزہ نفس اولاد سے بہرور کرے۔ حضرت انس کہتے تھے کہ اللہ کی قسم (آنحضرت ﷺ کی اسی دعا کے طفیل) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو نہایت پاکیزہ نفس اولاد سم سرفراز کیا۔
Top