مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6063
خود حضرت علی سے کس کی تائید حاصل ہوتی ہے
شیعوں کی بات تو بعد کی ہے کہ وہ اس حدیث کو حضرت علی کی خلافت بلافصل پر نص قطعی مانتے ہیں اور لفظ مولیٰ کے وہ معنی مراد لیتے ہیں جو لغوی نقلی اور عقلی طور پر کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتے۔ ان سے پہلے تو حضرت علی کی ذات ہے کہ اس حدیث کا براست تعلق بھی انہی سے ہے اور وہی صاحب معاملہ بھی ہیں لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ خود حضرت علی نے بھی اس حدیث کا وہی مفہوم مراد لیا ہے جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں یا ان کے نزدیک حدیث کے وہ معنی ہیں جو اہل سنت والجماعت مراد لیتے ہیں، جہاں تحقیق ودرایت کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہی نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ حضرت علی کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم ومطلب نہیں تھا جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں پہلی دلیل تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان علی الترتیب تینوں کی خلافت، جو حضرت علی کی خلافت سے مقدم تھی، اجماع امت کے تحت قائم ہوئی تھی اور حضرت علی اس اجماع میں شامل تھے قطع نظر اس بات کے کہ بعض صریح روایتوں سے آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر کا خلیفہ اور جانشین رسول ظاہر ہونا تھا اگر زیر بحث حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل اور آنحضرت ﷺ کے بعد تمام امت پر ان کی افضلیت و برتری کی طرف کسی بھی صورت میں صراحت یا اشارہ کرتی تو حضرت علی کسی بھی طرح اس اجماع امت میں شامل نہ ہوتے جس نے نہ صرف حضرت ابوبکر کا خلیفہ اول مقرر کیا بلکہ بعد میں حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان کی خلافت قائم کی۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر بقول شیعہ علماء یہ حدیث حضرت علی کے لئے خلافت بلافصل کی نص قطعی ہوتی تو حضرت علی یا حضرت عباس اور یا خاندان نبوت کا کوئی فرد آنحضرت ﷺ کے وصال کے فوراً بعد، جب کہ آنحضرت ﷺ کی خلافت اور جانشینی کا مسئلہ زیر مشورہ آیا، اس حدیث کو پیش کرتے اور اس کی بنیاد پر استحقاق علی کا دعویٰ کرتے لیکن ہوا یہ کہ حضرت علی نے تقویت و حمایت حاصل کرنے کے لئے اس حدیث کو بطور دلیل پیش بھی کیا تو اس وقت پیش کیا جب وہ مسند خلافت پر فائز ہوچکے تھے اور گروہ ان کی خلافت سے انحراف کررہا تھا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت علی خوب جانتے تھے کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے فورًا وصال کے بعد ان کے استحقاق خلافت پر نص پیش نہیں کرتی۔ تیسری دلیل یہ کہ بعض صحیح روایتوں کے مطابق خود حضرت علی نے وضاحت کی تھی کہ آنحضرت ﷺ سے ایسی کوئی چیز منصوص نہیں ہے جس سے ان کی یا کسی دوسرے کی خلافت ثابت ہوتی ہو، یہاں صرف اس نکتہ پر مرکوز رہنا چاہئے کہ حضرت علی اس حدیث کو اپنی خلافت بلا فصل پر نص نہیں مانتے تھے اور چوتھی دلیل وہ روایت ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے آخر مرض الموت میں ایک دن جب حضرت علی اور حضرت عباس آپ ﷺ کے پاس آئے تو حضرت عباس نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اس امر یعنی خلافت کی درخواست کرکے دیکھ لو، اگر یہ اعزاز ہمارے خاندان میں رہنے والا ہم تو اچھا ہے کہ ہمیں اس کا علم خود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ذریعہ ہوجائے لیکن حضرت علی نے حضرت عباس کی بات کو نہیں مانا اور صاف انکار کردیا کہ میں ایسی کوئی درخواست آنحضرت ﷺ سے نہیں کروں گا، اس سے بھی بخوبی ثابت ہوا کہ شیعوں کا دعوی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اگر یہ حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل کے حق میں نص ہوتی تو اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کرنے اور پوچھنے کی ضرورت کا ہے کو پیش آتی اور حضرت عباس یہ بات کیوں کہتے کہ اچھا ہے اس کا علم خود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ذریعہ ہوجائے، درآنحالیکہ اس حدیث اور غدیرخم کا واقعہ دو ڈھائی ماہ پہلے ہی پیش آیا تھا اور بالکل قریبی عرصہ کی بات ہونے کے سبب ان دونوں حضرات کے ذہن میں پوری طرح مستحضر تھا۔
Top