مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6060
الزامی جواب
ماننا چاہیے کہ یہ حدیث صحیح ہے، ائمہ حدیث مثلا امام ترمذی، امام نسائی اور امام احمد وغیرہ کی ایک جماعت نے اس کو نقل کیا ہے، اس کے طرق بھی بہت ہیں اور متعدد سلسلہ اسناد سے منقول ہے اور ان میں سے اکثر سلسلہ اسناد صحاح اور حسان ہیں۔ سولہ صحابہ اس حدیث کے روای ہیں بلکہ امام احمد نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی نے اپنا زمانہ خلافت میں ایک موقع پر جب کہ ان کے مخالفین کا گروہ ان کی خلافت کو نزاعی مسلہ بنائے ہوئے تھا، لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرکے ان سے فرمایا کہ میں تم سے ہر ایک کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہ بیان کرو تو اس پر تیس صحابہ نے کھڑے ہو کر یہ حدیث بیان کی اور خلافت علی کے حق میں شہادت دی۔ لہٰذا اس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے یا یہ کہا ہے کہ حدیث کا آخری حصہ الہم وال من والاہ الخ حقیقت میں اس حدیث کا جزء نہیں ہے بلکہ من گھڑت ہے اور بعد میں اس حدیث کا جزء بنایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ حصہ بھی حدیث کا جزء ہے اور اس کو متعدد طرق سے نقل کیا گیا ہے جن میں اکثر کو دہبی نے صحیح قرار دیا ہے لیکن جہاں تک اس حدیث سے شیعوں کے مذکورہ استدلال کا تعلق ہے تو اس کی یقینا کوئی بنیاد نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کو ان سمجھی یا دانستہ طور پر غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، لزامی جواب کے طور پر سب سے پہلی بات تو شیعوں سے یہ کہی جاسکتی ہے کہ خود تم اس بات پر متفق ہو کہ امامت کے مسئلہ میں دلیل کے نقطہ نظر سے تواتر کا اعتبا رہے یعنی امامت و خلافت کا استحقاق ثابت کرنے کے لئے وہی حدیث معتبر قرار پاسکتی ہے جو متواتر ہو جو حدیث متواتر نہیں ہے اس کے ساتھ صحت امامت پر استدلال نہ کرنا چاہئے جب کہ یہ حدیث جس کو تم لوگ نص قطعی وصریح قرار دے کر اپنا مستدل بناتے ہو، یقینی طور پر متواتر نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے تو صحیح ہونے میں بھی اختلاف ہے یہ دوسری بات ہے کہ اس اختلاف کو قبول نہیں کیا گیا جن حضرات نے اس حدیث کو مطعون قرار دیا ہے ان میں ابوداؤد سجستانی اور ابوحاتم رازی جیسے ائمہ حدیث اور ارباب عدل بھی شامل ہیں جن کی طرف علم حدیث میں رجوع کیا جاتا ہے اور جن کی ذات محدثین کے ہاں مرجع مانی جاتی ہے، علاوہ ازیں اہل حفظ واتقان مثلا بخاری، ومسلم۔ واقدی اور دوسرے اکابر محدثین میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے جب کہ یہ حضرات حدیث کی طلب و جستجو میں شہر شہر قریہ قریہ پھرتے تھے اور صحیح احادیث کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرتے تھے گویا بات نہ فنی طور پر اس حدیث کی صحت رخنہ ڈالتی ہے اور نہ ہم اس حدیث کے صحیح ہونے سے انکار کرتے ہیں لیکن کیا یہ حیرت واستعجاب کی بات نہیں ہے کہ ایسی حدیث کو حدیث متواتر قرار دینے کی کوشش کی جائے جب شیعہ صحت امامت کی دلیل میں حدیث متواتر کا ہونا شرط مانتے ہیں تو اس کا صاف مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوا کہ وہ اس حدیث کو نص قطعی وصریح مان کر گویا اس حدیث کو متواتر قرار دے رہے ہیں۔
Top