مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6052
وعن جابر قال : دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليا يوم الطائف فانتجاه فقال الناس : لقد طال نجواه مع ابن عمه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما انتجيته ولكن الله انتجاه . رواه الترمذي
خاص فضیلت
اور حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ طائف کے دن رسول اللہ ﷺ نے علی کو بلایا اور اس سے سرگوشی کرنے لگے (یعنی ایسا نظر آرہا تھا جیسے کسی خاص مسئلہ پر ان کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کررہے ہیں اور جب ان باتوں کا سلسلہ کچھ دراز ہوگیا تو (منافقین نے یا صحابہ میں عام) لوگوں نے کہا اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ تو رسول اللہ نے بڑی دیر تک کانا پھوسی کی؟ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سنا تو) فرمایا علی کے ساتھ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے۔ (ترمذی)

تشریح
بلکہ اللہ نے سرگوشی کی یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا تھا کہ بعض باتیں چپکے چپکے علی تک پہنچا دوں، اس لئے حکم الہٰی کی تعمیل میں میں نے ان کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کی ہیں نہ کہ میں ان کے ساتھ وہ کانا پھوسی کررہا تھا جو آداب مجلس کے خلاف ہے اور چونکہ وہ سرگوشی اللہ کے حکم کی تعمیل میں تھی لہٰذا اس صورت میں گویا اللہ نے ان سے سرگوشی کی، مصداق کے اعتبار سے یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا ایک آیت قرآن کا یہ فقرہ ( وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى) 8۔ الانفال 17) اور آپ ﷺ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی اس سلسلہ میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ حضرت علی ؓ سے آنحضرت ﷺ کی اس سرگوشی کا موضوع دراصل اس غزوہ کی بابت کچھ ایسے نقطے اور راز کی باتیں تھیں جن کا تعلق دین کے ضمن میں آنے والے دنیاوی انتظام و معاملات سے تھا اور جن کا برسر عام تذکرہ حکمت وپالیسی کے خلاف تھا یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے منجانب اللہ نازل شدہ دین کی کوئی بات یا دینی امور سے متعلق کچھ احکام سب لوگوں سے چھپا کر حضرت علی کو دئیے خود حضرت علی نے اس طرح کے خیال کے مبنی برحقیقت ہونے کی تردید کی ہے چناچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب کچھ لوگوں نے حضرت علی ؓ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی ایسی چیز (یعنی کوئی ایسا خدائی حکم و فرمان) ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے! حضرت علی نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس نے زمین سے دانہ اگایا اور ذی روح کو پیدا کیا، میرے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو قرآن میں موجود ہے ہاں کتاب اللہ کی وہ سمجھ مجھے حاصل ہے جو (حق تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کے تحت) کسی کو حاصل ہوتی ہے اور یہ ایک صحیفہ میرے پاس ہے (جس میں وراثت ودیت وغیرہ کے کچھ احکام لکھے ہوئے ہیں )۔
Top