مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6049
وعن أنس قال : كان عند النبي صلى الله عليه و سلم طير فقال : اللهم ائتني بأحب خلقك إليك يأكل معي هذا الطير فجاء علي فأكل معه . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
علی اللہ کے محبوب ترین بندے
اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کے سامنے (بھنایاپکا ہوا) پرندہ رکھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے دعا مانگی اے اللہ! تیری مخلوق میں جو بہت زیادہ تجھ کو محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے پس حضرت علی آئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ کھایا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
ابن جوزی کا کہنا تو یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے لیکن حاکم نے اس کو موضوع قرار دیا ہے نیز مختصر ع میں یہ لکھا ہے کہ یہ روایت گوبہت سے طرق سے منقول ہے مگر وہ سارے طرق ضعیف ہیں، بہر حال یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں محبوب ترین بندے تھے۔ تاہم شارحین نے حدیث کا یہ مطلب بعض تخصیصات وقیود کے ساتھ بیان کیا ہے مثلا یہ کہ سیدنا علی اللہ کے محبوب ترین بندے تھے، سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ترین بندوں میں سے ایک تھے یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کے غم زادوں یا آپ ﷺ کے قریب ترین رشتہ داروں میں اللہ کے محبوب ترین بندے سیدنا علی تھے اور یا یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حسن سلوک اور احسان کا ترجیحی بنیاد پر سب سے زیادہ استحقاق رکھنے والوں میں اللہ کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے سیدنا علی تھے۔ ان تحقیقات اور قیود سے شارحین کا مقصد غالباً یہ ہے کہ الفاظ حدیث سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکے کہ سیدنا علی، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بھی زیادہ محبوبیت رکھتے تھے، حالانکہ حقیقت میں ان تخصیصات وقیود کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اول تو یہ یقینی بات ہے کہ حدیث میں مخلوق سے علی العموم تمام مخلوق مراد نہیں ہے، اگر علی العموم تمام مخلوق مراد لی جائے تو یہ مطلب ہوگا کہ سیدنا علی کا مرتبہ آنحضرت ﷺ سے بھی بڑھا ہوا تھا جو نہ صرف یہ کہ علی الطلاق محبوب ترین بندے ہیں بلکہ سید المحبوبین اور افضل المخلوقین بھی ہیں، اس لئے آنحضرت ﷺ پر سیدنا علی کو کیا کسی کو بھی فضیلت نصیب نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ اگر کسی خاص نسبت اور کسی مخصوص حیثیت کے اعتبار سے سیدنا علی کا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بھی محبوب تربندہ ہونا ثابت ہو تو بجمیع وجوہ مراد نہ ہونے کے سبب اس کو ابوبکر وعمر پر علی کی جزوی فضیلت کہیں گے اور یہ جزوی فضیلت ان دونوں کی اس کلی فضیلت کے منافی ہرگز نہیں ہوگی جو کثرت اجر اور ثواب کی بنا پر اور بجمیع وجوہ ان کو حاصل ہے، لہٰذا روافض اگر اس حدیث سے حضرت علی کی خلافت بلافصل پر دلیل لیتے ہیں اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر پر ان کی کلی فضیلت و برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی نادانی ہے۔ ان کو دیکھنا چاہے کہ اس طرح کے الفاظ حضرت عمر کی منقبت میں بھی مقبول ہیں جیسے ایک حدیث میں فرمایا گیا ما طلعت الشمس علی خیرمن عمر (عمر سے بہتر کسی انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا) یا ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں ارفع درجۃ فی الجنۃ عمر (جنت میں عمر کا درجہ بلند تر ہوگا) تو کیا ان حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے روافض وشیعہ یہ تسلیم کریں گے کہ علی العموم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ افضل واعلی حضرت عمر ہیں کیونکہ ان حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ روئے زمین پر عمر سے بہتر کوئی انسان نہیں اور جنت میں کسی کا بھی درجہ عمر سے بلند نہیں ہوگا، ظاہر ہے اہل رفض و تشیع اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مطلب تو اہل سنت والجماعت بھی مراد نہیں لیتے بلکہ چند تحصیصات وقیود کے ساتھ الفاظ حدیث کا مطلب بیان کرتے ہیں تو پھر حضرت علی ؓ سے متعلق اس روایت کو مطلق اس کے ظاہری معنی پر محمول کرکے ان کی علی الاطلاق افضلیت پر ان روافض اور شیعوں کو اصرار کیوں ہے، ایک بات اہل سنت سے بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ افضلیت کا مسئلہ طنی ہے اس کو ایمان وکفر کا معاملہ نہ بنانا چاہئے، اسی طرح اس روایت کو موضوع قرار دینے پر زور صرف کرنا چاہئے، فنی اور تحقیقی طور پر کتنا ہی درست ہو مگر ظاہری طور پر اس کو شدت وتنگی بلکہ تعصب پر محمول کیا جانا مستبعد نہیں ہے۔
Top