مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6040
شیعوں کی کج رائی
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہے گئے آنحضرت ﷺ کے ان الفاظ کو شیعہ لوگ ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق اپنے بےبنیاد عقیدے کی دلیل بنا کر بیٹھ گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حضرت علی کو خلافت کا بار سونپا تھا۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا اولین استحقاق حضرت علی کا تھا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ روافض نے تو اس کج رائی کا شکار ہو کر تمام صحابہ کو کافر تک کہہ ڈالا ہے، اس وجہ سے کہ ان کے بقول ان صحابہ نے آنحضرت ﷺ کی وصیت سے انحراف کیا اور خلافت کے بارے میں حضرت علی پر دوسروں کو مقدم کیا، بلکہ ان میں سے بعض ستم ظریفوں نے تو حضرت علی کو بھی نہیں بخشا اور کہا ہے کہ حضرت علی نے چونکہ اپنا حق طلب نہیں کیا اور خلافت کا دعویٰ لے کر مضبوطی سے نہیں اٹھے اس لئے وہ بھی کافر ایسے نادانوں سے بس یہی کہنا چاہئے کہ تم سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے جو لوگ تمام امت کو کافر کہیں خصوصا طبقہ اول (صحابہ) پر کفر کا اطلاق کریں اور اس طرح گویا یہ ثابت کریں کہ وہ پوری شریعت کو غیر معتبر قرار دے رہے ہیں اور اسلام کی ساری عمارت کو ڈھا رہے ہیں تو ان کے کفر میں کس کو شک ہوگا۔ بہرحال اہل سنت والجماعت نے اس حدیث سے شیعوں کے مذکورہ استدلال کو دوراز کار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الفاظ حدیث سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ محض اس عرصہ کے لئے بنایا تھا جو غزوہ تبوک کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر گزارا تھا، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اس عرصہ کے لئے اپنی قوم پر خلیفہ بنایا تھا، جو انہوں نے چلہ کے لئے کوہ طور پر گزارا تھا اگر اس عرصہ کے لئے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنانا سے آنحضرت ﷺ کا مقصد اس بات کی وصیت کرنا یا اس طرف اشارہ کرنا ہوتا کہ اسی طرح میرے وصال کے بعد بھی خلیفہ علی ہونگے تو آپ ﷺ اس موقع پر حضرت علی کو حضرت ہارون (علیہ السلام) سے تشبیہ نہ دیتے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے تھے، وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال سے چالیس سال پہلے ہی وفات پاچکے تھے، علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں اپنی عدم موجودگی اسی عرصہ میں امامت نماز کے لئے اپنا خلیفہ ایک دوسرے صحابی حضرت ام مکتوم کو بنایا تھا چناچہ اس عرصہ میں حضرت علی تو آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال کی خبر گیری اور حفاظت کے فرائض انجام دیتے تھے اور حضرت ام مکتوم نماز میں لوگوں کی امامت کرتے تھے، اگر خلافت مطلق ہوتی تو اصول کے مطابق آنحضرت ﷺ امامت نماز کی ذمہ داری بھی یقینا حضرت علی ہی کو سونپ کر جاتے، اس کے لئے ایک دوسرے آدمی کو نامزد نہ فرماتے۔
Top