مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عثمان کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6023
وعن ثمامة بن حزن القشيري قال : شهدت الدار حين أشرف عليهم عثمان فقال : أنشدكم بالله والإسلام هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قدم المدينة وليس بها ماء يستعذب غير بئر رومة ؟ فقال : من يشتري بئر رومة يجعل دلوه مع دلاء المسلمين بخير له منها في الجنة ؟ فاشتريتها من صلب مالي وأنتم اليوم تمنعونني أن أشرب منها حتى أشرب من ماء البحر ؟ قالوا : اللهم نعم . فقال : أنشدكم بالله والإسلام هل تعلمون أن المسجد ضاق بأهله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من يشتري بقعة آل فلان فيزيدها في المسجد بخير منها في الجنة ؟ . فاشتريتها من صلب مالي فأنتم اليوم تمنعونني أن أصلي فيها ركعتين ؟ فقالوا : اللهم نعم . قال : أنشدكم بالله والإسلام هل تعلمون أني جهزت جيش العسرة من مالي ؟ قالوا : اللهم نعم . قال : أنشدكم بالله والإسلام هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان على ثبير مكة ومعه أبو بكر وعمر وأنا فتحرك الجبل حتى تساقطت حجارته بالحضيض فركضه برجله قال : اسكن ثبير فإنما عليك نبي وصديق وشهيدان . قالوا : اللهم نعم . قال : الله أكبر شهدوا ورب الكعبة أني شهيد ثلاثا . رواه الترمذي والنسائي والدارقطني
باغیوں سے جراتمندانہ خطاب
اور حضرت ثمامہ ابن حزن قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عثمان کے مکان پر موجود تھا (جب اس کو مفسدوں اور باغیوں کی ایک بڑی جماعت نے محاصرہ میں لے رکھا تھا اور اندر گھس کر حضرت عثمان کو قتل کردینا چاہتے تھے) حضرت عثمان نے اوپر سے جھانک کر ان باغیوں کو مخاطب کیا اور فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم لوگوں سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول کریم ﷺ (مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ میں تشریف لائے تھے تو اس وقت مدینہ میں رومہ کے کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا کنواں نہ تھا، پھر آنحضرت ﷺ نے جب یہ فرمایا تھا کہ کون شخص ہے جو رومہ کے کنویں کو خریدے اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنادے اس نیکی اور بہتر اجر کے بدلہ میں جو اس (کنویں کو خرید کر وقف کرنے والے) کو اس کنویں کے سبب جنت میں ملے گا۔ تو میں ہی تھا جس نے (آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر) اپنے اصل اور خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور آج مجھ کو اس کنویں کا پانی پینے سے روک رہے ہو یہاں تک کہ میں سمندر کا (یعنی سمندر جیسا کھاری (پانی پینے پر مجبور ہورہا ہوں، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ! ہمیں اس کا علم ہے (کہ عثمان ہی نے اس کنویں کو خرید کر وقف کیا تھا) پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب مسجد نبوی نمازیوں کی زیادتی کے سبب تنگ پڑنے لگی تھی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کون شخص ہے جو فلاں شخص کی اولاد کی زمین خریدے اور اس کے ذریعہ مسجد کی توسیع کردے اس نیکی اور بہتر اجر کے بدلہ میں جو اس (زمین کو خرید کر مسجد کی توسیع کے لئے وقف کرنے والے) کو اس زمین کے سبب جنت ملے گی، پس یہ میں تھا جس نے اس زمین کو اپنے اصل اور خالص مال سے خریدا اور آج تم مجھ کو اسی زمین پر (چہ جائیکہ اصل مسجد میں) دو رکعت نماز پڑھنے سے روکتے ہو، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ! ہمیں اس کا علم ہے پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ میں ہی تھا جس نے جیش عسرۃ (یعنی غزوہ تبوک میں جانے والے لشکر) کی تیاری اپنے مال سے کرائی تھی (اور میری اس مالی خدمت پر آنحضرت ﷺ نے میرے حق میں جو قیمتی الفاظ ارشاد فرمائے تھے وہ میرے حسن حال اور حسن مال پر دلالت کرتے ہیں) لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں اے اللہ! ہمیں معلوم ہے، پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ مکہ کی پہاڑی پر ثبیر پر کھڑے تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور میں بھی تھا اور جب وہ پہاڑی (اپنے اوپر آنحضرت ﷺ کو۔۔۔۔۔۔ باوجود کو دیکھ کر جوش مسرت سے) ہلنے لگی اور اس کے ہلنے سے پہاڑی پر پتھر نیچے کی سمت اور دامن کوہ میں گر نے لگے تو آنحضرت ﷺ نے پہاڑی کو ٹھوکر ماری اور فرمایا (اے ثبیر! ٹھہر جا حرکت نہ کر، اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو (حقیقی) شہید ہیں، لوگوں نے (یہ سن کر) کہا ہاں، اے اللہ! ہمیں اس کا علم ہے اور پھر حضرت عثمان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ان لوگوں نے میری باتوں کی تصدیق کی ہے رب کعبہ کی قسم میں یقینا شہید ہوں، یہ الفاظ انہوں نے تین بار فرمائے۔ (ترمذی، نسائی، دارقطنی)

تشریح
بئر رومہ کا کنواں یہ مدینہ کے اس بڑے کنویں کا نام ہے جو وادئ عقیق میں مسجد قبلتین کے شمالی جانب واقع ہے۔ اس کنویں کا پانی نہایت شریریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ اس مناسبت سے کہ آنحضرت ﷺ کی بشارت کے مطابق اس کنویں کو خریدنے اور وقف کرنے کے سبب حضرت عثمان کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اس کنویں کا ایک نام بئر جنت یعنی جنتی کنواں بھی مشہور ہے، اس زمانہ میں حضرت عثمان نے اس کنویں کو ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا تھا۔ اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنا دے یہ وقف کرنے سے کنایہ ہے یعنی جو شخص اس کنویں کو خریدے اور اس کو اپنی ذاتی ملک قرار نہ دے بلکہ رفاعہ عام کے لئے وقف کردے تاکہ جس طرح خود وہ شخص اس کنویں سے فائدہ اٹھائے اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں اس سے۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ سقایات (یعنی کنواں، تالاب اور حوض وغیرہ) وقف کرنا جائز ہے اور یہ کہ وقف کی ہوئی چیز وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل جاتی ہے۔ ہاں، اے اللہ ان الفاظ کے ذریعہ ان لوگوں نے حضرت عثمان کی تصدیق کی کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کی صداقت میں ہمیں ذرہ برابر شبہ نہیں ہے پہلے اللہم (اے اللہ) کا لفظ اسم الہٰی کے ساتھ حصول برکت کے لئے بھی تھا اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے بھی۔ فلاں شخص کی اولاد سے مراد انصار سے تعلق رکھنے والے خاندان کے وہ افراد تھے جو مسجد نبوی کے قریب آباد تھے اور ان کی ملکیت میں ایسی زمین تھی جس کو مسجد نبوی میں شامل کردینے سے مسجد شریف وسیع اور کشادہ ہوجاتی، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو متوجہ کیا کہ جو شخص ہمت واستطاعت رکھتا ہو وہ اس زمین کو خرید کر مسجد میں شامل کرنے کے لئے وقف کردے اور حضرت عثمان غنی نے آنحضرت ﷺ کی خواہش کے مطابق اس زمین کو بیس ہزار یا پچیس ہزار درہم کے عوض خرید کر مسجد نبوی میں شامل کرنے کے لئے وقف کردیا، مسجد نبوی کی اصل تعمیر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی تھی جب آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے پہلے سال صحابہ کرام کے ساتھ ملکر اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی تعمیر کی اور پھر ہجرت کے ساتویں سال آپ ﷺ نے اس مسجد میں اضافہ فرما کر مربع شکل میں کردیا۔ اس وقت اس کی دیواریں اینٹ کی تھیں اور چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ اور اس کے ستون کھجور کے تنوں پر مشتمل تھے۔ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اس مسجد میں کوئی ترمیم وتوسیع نہ ہوئی، پھر ١٧ ھ میں حضرت عمر فاروق نے اس کی مرمت کرائی اور اضافہ بھی فرمایا۔ اس کے بعد ٢٩ ھ میں حضرت عثمان نے اس کی از سر نو تعمیر کرائی اور اس کے وسعت و کشادگی کو بھی بڑھایا۔ انہوں نے اس کی دیواریں اور ستون منقش پتھروں اور چونے سے بنوائے اور چھت ساکھو کی لکڑی کی کروائی۔ حضرت عثمان کے بعد خلفاء اور بادشاہ اپنے اپنے دور میں اضافے اور مرمت کراتے رہے یہاں تک کہ ١٢٦٥ ھ میں سلطان عبد المجید عثمانی نے نئے انداز پر اس مسجد کی پر شکوہ تعمیر کرائی۔ اور پھر اس تعمیر کی دوبارہ تجدید اور توسیع ١٣٧٢ ھ میں شاہ ابن سعودمرحوم کے حکم سے کی گئی۔ اور دو ( حقیقی) شہید ہیں یعنی آپ ﷺ نے گویا پیشین گوئی فرمائی کہ اس وقت یہاں پہاڑی پر جو چار آدمی موجود ہیں ان میں میرے اور ابوبکر صدیق کے علاوہ باقی دو آدمیوں یعنی عمر اور عثمان کو شہادت حقیقی حاصل ہوگی۔ چناچہ یہ دونوں حضرات حقیقی معنی میں شہید ہوئے کہ ایک ( حضرت عمر) نے تو قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں خنجر کے زخم سے شہادت پائی اور دوسرے (حضرت عثمان) کو باغیوں نے گھر میں گھس کر نہایت بےرحمی کے ساتھ قتل کرکے جام شہادت پلایا۔ پس حدیث کے یہ الفاظ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ شہادت حکمی آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو حاصل ہوئی کیونکہ آنحضرت ﷺ کی موت اس زہر کے اثر عود کرنے سے ہوئی تھی جو آپ ﷺ کو کافی عرصہ پہلے غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے بکری کے گوشت میں ملا کردیا تھا اور حضرت ابوبکر کی موت اس سانپ کے زہر کے اثرات عود کرنے سے ہوئی تھی جس نے ان کو سفر ہجرت کے دوران غار ثور میں ڈس لیا تھا اللہ اکبر کا نعرہ لگایا یعنی حضرت عثمان ؓ نے اس موقع پر پہلے اللہ اکبر کہا اور پھر بعد میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور یہ اللہ اکبر کہنا اپنے باغیوں اور دشمنوں پر زیادہ سے زیادہ حجت قائم کرنے کی نیت سے بھی تھا اور اس امر پر اظہا رتعجب کے لئے بھی کہ یہ لوگ ایک طرف تو میری باتوں کی تصدیق کررہے ہیں اور خود زبان سے ان حقائق کو تسلیم کررہے ہیں جن سے میری منقبت ظاہر ہوتی ہے اور دوسری طرف اپنی مفسدانہ اور باغیانہ کاروائیوں میں بدستور لگے ہوئے ہیں اور فتنہ و فساد پھیلانے اور مجھے ہلاک کردینے کے عزائم سے باز آنے پر تیار نہیں ہیں۔
Top