مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5999
وعن ابن مسعود قال : فضل الناس عمر بن الخطاب بأربع : بذكر الأسارى يوم بدر أمر بقتلهم فأنزل الله تعالى [ لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم ] وبذكره الحجاب أمر نساء النبي صلى الله عليه و سلم أن يحتجبن فقالت له زينب : وإنك علينا يا ابن الخطاب والوحي ينزل في بيوتنا ؟ فأنزل الله تعالى [ وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ] وبدعوة النبي صلى الله عليه و سلم : اللهم أيد الإسلام بعمر وبرأيه في أبي بكر كان أول ناس بايعه . رواه أحمد
وہ چار باتیں جن میں عمر کو فضیلت حاصل ہوئی
اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب کو دوسروں پر چار باتوں کے سبب خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ ایک بات تو جنگ بدر کے قیدیوں کے بابت ان کی رائے تھی، یہ کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) 8۔ الانفال 68) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہو چکتا ( کہ خطاء اجتہادی کا مرتکب مستوجب عذاب نہیں ہوگا یا کوئی بری سزا واقع ہوتی۔ دوسری بات پردہ کی بابت ان کا مشورہ دینا تھا۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو پردہ (میں رہنے) کی طرف متوجہ کیا تھا اور (ان کے توجہ دلانے پر) ام المؤمنین حضرت زینب نے ان سے کہا تھا کہ اے عمر ابن خطاب! پردہ میں رہنے کی بات ہم سے تم کہہ رہے ہو حالانکہ وحی ہمارے گھروں میں اترتی ہے؟ اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی (فَسْ َ لُوْهُنَّ مِنْ وَّرَا ءِ حِجَابٍ ) 33۔ الاحزاب 53) (یعنی اور جب تم ان (ازواج النبی) سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو) تیسری بات وہ دعا ہے تھی جوان کے حق میں نبی کریم ﷺ نے مانگی تھی کہ الہٰی عمر کے ذریعہ اسلام کو تقویت عطا فرما۔ اور چوتھی بات ابوبکر کے حق میں ان کی رائے تھی کہ انہوں نے (حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول بنانے کی تجویز پیش کرکے بڑے نازک وقت میں تمام مسلمانوں کی بروقت راہنمائی کی اور اپنی زبردست قوت اجتہاد کے ذریعہ انہی کو خلافت اول کا اہل و مستحق جان کر) سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیت کی (اور پھر ان کی پیروی میں اور سب لوگوں نے خلافت صدیق پر بیت کی) (احمد )

تشریح
جنگ بدر کے قیدیوں کی بابت ان کی رائے تھی اس کی تفصیل خود حضرت عمر ایک روایت میں جو ریاض الصالحین میں منقول ہے۔ یوں بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن (جب اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو فتح و غلبہ عطا فرمایا اور قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ لگی تو) رسول اللہ ﷺ کی مجلس مشاورت منعقد کی اور ان قیدیوں کے بارے میں مشورہ چاہا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ان قیدیوں میں سب اپنے ہی رشتے ناطے کے لوگ ہیں، کوئی چچا کا بیٹا ہے تو کوئی بھائی کا بیٹا ہے، کوئی خاندان کا فرد ہے تو کوئی قبیلے کا، اگر ہم ان سب سے فدیہ (مالی معاوضہ) لے کر ان کو رہا کردیں تو اس سے ہمیں دشمنان دین کے مقابلہ کے لئے اگلی تیاریوں میں بڑی مدد ملے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رہا ہونے والوں کو ہدایت فرمادے اور یہ اسلام قبول کرکے ہمارے معاون ومدد گار بن جائیں۔ آنحضرت ﷺ نے (ابو بکر کی یہ رائے سن کر) فرمایا کہ عمر! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں ابوبکر کی رائے کو موزوں نہیں سمجھتا، دراصل یہ سارے قیدی کفر و ضلالت کی پیشوائی کرنے والے اور دشمنان دین کے سردار ہیں، ان کو زندہ چھوڑ نا دینا خطرہ مول لینا ہے، ان سب کی گردنیں اڑا دینا ہی مناسب ہے آخر کار آنحضرت ﷺ نے ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر ان قدیوں کو رہا کردیا۔ اگلے دن صبح کو جب میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر گریاں ولرزاں بیٹھے ہوئے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ خیر تو ہے! آپ ﷺ کے یہ رفیق (ابو بکر) رو کیوں رہے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمر! (کیا پوچھتے ہو، سمجھو بس اللہ نے خیر ہی کردی، نہیں تو) عذاب تو میرے سامنے اس درخت سے بھی قریب آگیا تھا (جو بالکل سامنے نظر آرہا ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَه اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 68) 8۔ الانفال 68-67) پیغمبر کو شایاں نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کردیئے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (دشمنان دین کی) خونریزی نہ کرلیں۔ تو تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست اور بڑے حکمت والے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکتا تو جو امر تم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔ اس سے واضح ہوا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں انسب رائے وہی ہے تھی جو حضرت عمر نے ظاہر کی تھی۔ حضرت ابوبکر کی رائے اس مصلحت پر مبنی تھی کہ اس وقت اہل اسلام کے لئے مالی تنگیوں اور پریشانیوں کا بڑا نازک مرحلہ درپیش ہے۔ دشمنان دین اس جنگ میں ہزیمت خورہ ہونے کے باجود اپنی معاندانہ روش کو ترک نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے جارحانہ عزائم جوں کے توں ہیں اور وہ اپنی مالی وانسانی قوت کو مجتمع کرکے اہل اسلام کو پھر میدان جنگ میں لانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنے خونی رشتہ داروں اور اعزاواقرباء کو اپنے ہاتھوں قتل کیا گیا۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس احسان کو خود یہ قیدی محسوس کریں اور ان کو ایمان قبول کرنے اور ہمارا مددگار بن جانے کی توفیق مل جائے دوسری طرف فدیہ کی شکل میں ان سے حاصل ہونے والا مال و اسباب ہماری بڑی مدد کرے گا اس کے ذریعہ ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور دشمنان دین سے لڑنے کے لئے جنگی وسائل و ذرائع فراہم کریں گے ایک اعتبار سے یہ رائے حضرت ابوبکر کی صفت جمال کا مظہر بھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں جن حضرات کے مزاج میں نرمی اور مروت کا زیادہ دخل تھا ان سب نے بھی اس رائے کی تائید کی۔ دوسری طرف حضرت عمر کی رائے ان کی صفت جلال کا مظہر تھی اور جن صحابہ پر اس صفت کا غلبہ تھا انہوں نے حضرت عمر کی رائے کی تائید کی نبی رحمت ﷺ اگرچہ تمام صفات و کمالات کے جامع تھے مگر واقعہ یہ کہ آپ ﷺ مائل صفت جمال ہی کی طرف تھے اور اسی وجہ سے اس موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا۔ تاہم اللہ کی علیم وخبیر ذات کے علاوہ اور کون اس فیصلہ کے اصل عواقب و نتائج کو جان سکتا تھا، اس کی بارگاہ حکمت میں قیدیوں کی رہائی کا یہ فیصلہ غیرموزوں قرار پایا اور اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں جن سے حضرت عمر کی اصابت رائے کی توثیق ہوئی۔
Top