مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5993
سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر کا نسب نامہ یہ ہے
عمر بن خطاب بن فضیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی کعب پر پہنچ کر یہ سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے حضرت عمر کی کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے امام نووی کی تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی اور جیسا کہ ذہبی نے لکھا ہے۔ بعمر ١٧ سال ٦ ھ نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوئے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق ٥ ھ نبوی میں اسلام لائے اس وقت تک چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ آپ کو فاروق کا لقب اس واقعہ کے بعد ملا کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا اور تصفیہ کے لئے یہودی نے آنحضرت ﷺ کو ثالث بنانے کی تجویز رکھی، منافق مشرکین قریش کے اس سردار کعب بن اشرف کو ثالث بنانے پر مصر تھا، کافی حیل وحجت کے بعد دونوں نے آنحضرت ﷺ کو ثالث بنانا مان لیا۔ چناچہ وہ دونوں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آنحضرت ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ اس کا حق پر ہونا ثابت تھا لیکن منافق نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور کہنے لگا کہ اب ہم عمر کو ثالث بنائیں گے، وہ جو فیصلہ دیں گئے ہم دونوں کے لئے واجب التسلیم ہوگا۔ یہودی نے معاملہ کو نمٹانے کی خاطر منافق کی یہ بات بھی مان لی اور اس ساتھ حضرت عمر کے پاس گیا۔ یہودی نے حضرت عمر بتایا کہ ہم دونوں پہلے محمد ﷺ کو ثالث مان کر ان کے پاس گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر یہ شخص (منافق) محمد ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور اب مجھے تمہارے پاس لے کر آیا ہے۔ حضرت عمر نے منافق سے پوچھا اس (یہودی) نے جو بیان کیا ہے وہ صحیح ہے؟ منافق نے تصدیق کی کہ ہاں اس کا بیان بالکل درست ہے۔ حضرت عمر نے کہا تم دونوں یہیں ٹھہرو، جب تک میں نہ آؤں واپس نہ جانا۔ یہ کہہ کر گھر میں گئے اور تلوار لے کر باہر نکلے اور پھر اس تلوار سے منافق کی گردن اڑا دی اور کہا جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے اس کے حق میں میرا فیصلہ یہی ہوتا ہے اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْ ا اِلَى الطَّاغُوْتِ ) 4۔ النساء 60) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی وہ اپنے مقدمے شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں (حالانکہ ان کو یہ حکم ہوا ہے کہ اس کو نہ مانیں )۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا عمر، حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں اس دن سے حضرت عمر کا لقب فاروق مشہور ہوگیا۔
Top