مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5992
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : اللهم أعز الإسلام بأبي جهل بن هشام أو بعمر بن الخطاب فأصبح عمر فغدا على النبي صلى الله عليه و سلم فأسلم ثم صلى في المسجد ظاهرا . رواه أحمد والترمذي
عمر کے اسلام کی دعائے نبوی ﷺ
اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک رات) آپ ﷺ نے دعا فرمائی الہٰی! ابوجہل ابن ہشام یا عمر ابن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے (یعنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو مسلمان بننے کی توفیق عطا فرما دے تاکہ ان کے سبب دین اسلام کو طاقت نصیب ہو) چناچہ اگلے ہی دن جب صبح ہوئی تو عمر ابن الخطاب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان بن گئے اور پھر آنحضرت ﷺ نے مسجد حرام میں علانیہ نماز پڑھی۔ (احمد، ترمذی)

تشریح
دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب قریش مکہ نے داعی حق ﷺ اور حق کے نام لیواؤں کے خلاف ظالمانہ محاذ قائم کر رکھا تھا۔ اور اہل اسلام کو تشدد آمیز کار روائیوں کے ذریعے مجبور وہراساں کرتے تھے تو مکہ میں کوئی مسلمان علانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ دارارقم میں رہا کرتے تھے اور اسی مکان میں پوشیدہ طور پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا، اللہ کی بندگی کی جاتی تھی اور اللہ کا رسول اللہ ﷺ کا دین زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی تدبیر میں لگا رہتا تھا۔ آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ زعماء قریش میں دو آدمی یعنی ابوجہل اور عمر اس حیثیت کے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اسلام قبول کرکے ہمارے ساتھ آجائے تو اسلام جو آج قریش مکہ کے ظلم وستم کی وجہ سے دارارقم میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اتنی طاقت پاجائے گا کہ مسلمانوں کو چھپ کر اللہ کا نام لینے اور اللہ کی عبادت کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا، وہ علانیہ نماز پڑھنے لگیں گے اور کھلے طور اسلام کی دعوت پیش کرسکیں گے۔ چناچہ آپ ﷺ نے مذکورہ دعا کی یہ دعا کس طرح قبول ہوئی اور حضرت عمر کس طرح مشرف باسلام ہوئے اس کی تفصیل ایک روایت میں جس کو ابوحاکم عبداللہ نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابوجہل نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو قتل کردے اس کو انعام میں اس سو اونٹنیاں اور ہزار چاندی میں دوں گا۔ عمر (یہ سن کر) بولے الضمان صحیح یعنی تاوان صحیح ہے! ابوجہل نے کہا ہان فورًا ادا کروں گا، ذرا بھی تاخیر نہیں ہوگی! عمر وہاں سے اٹھ کر چل پڑے۔ راستے میں اس ایک شخص مل گیا، اس نے پوچھا عمر! خیر تو ہے کہاں کے ارادے سے چلے؟ عمر نے جواب دیا، محمد ﷺ کی طرف جارہا ہوں، ارادہ ہے کہ آج ان کا کام تمام کردوں۔ اس شخص نے کہا کیا (محمد کے خاندان) بنی ہاشم (کے انتقام) کا کوئی خوف نہیں ہے؟ عمر بولے معلوم ہوتا ہے تم نے بھی اپنا دھرم تیاگ دیا (جبھی تو بن ہاشم کے انتقام سے ڈرا کر مجھے محمد کے قتل سے باز رکھنا چاہتے ہو) اس شخص نے کہا اس سے زیادہ حیرتناک بات تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہارے بہن اور بہنوئی نے اپنا پرانا مذہب چھوڑ دیا ہے اور محمد ﷺ کے ساتھ مل گئے ہیں (یہ سنتے ہیں) عمر اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گئے، وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی بہن گھر کے اندر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھیں اور سورت طہ پڑھ رہی تھیں عمر نے کچھ دیر تو دروازے پر کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے ہوئے سنا پھر دروازہ کھٹکھٹا یا جب اندر داخل ہوئے تو بہن کو دیکھتے ہی سوال کیا پڑھنے کی یہ آواز کیسی آرہی تھی؟ بہن نے ان کو پوری بات اور ان پر واضح کردیا کہ ہم صدق دل سے مسلمان ہوگئے ہیں (اب تم یا کوئی چاہے جتنی سختی کرے، جو دین ہم نے قبول کرلیا ہے اس سے دستبردار نہیں ہوں گے) عمر (کے لئے یہ صورت انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز تھی، ایک طرف تو فوری اشتعال نے انہیں بیاہی بہن اور عزیزبہنوئی کو مارنے پیٹنے پر مجبور کردیا دوسری طرف خود ان کی زندگی میں آنے والا انقلاب ان کے دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا، اس سخت) اضطرابی کیفیت میں رات بھر مبتلا رہے۔ ادھر رات میں ان کے بہن وبہنوئی (معمول کے مطابق) اٹھے اور عبادت الٰہی و تلاوت قرآن کریم میں پھر مشغول ہوگئے انہوں نے طہ ماانزلنا علیک القرآن لتشقی (طہ ہم نے آپ ﷺ پر قرآن مجید اس لئے نہیں اتار کہ آپ ﷺ تکلیف اٹھائیں) سے پڑھنا شروع کیا۔ (اب عمر سے رہا نہیں گیا، ایسا معلوم ہوا جیسے تلاوت قرآن کریم کی اس آواز نے ان کی روح کو آخری طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے) کلام اللہ ابدی صداقت ان کے دل و دماغ پر چھانے لگی، بڑی بےتابی کے ساتھ بولے لاؤ یہ کتاب مجھے دو ذرا میں بھی تو (پڑھ کر) دیکھوں۔ (بہن نے محسوس کرلیا کہ بھیا کا وہ سخت دل جس کو کفر وشرک نے پتھر بنادیا تھا، پگھل رہا ہے، خدائی پکار کی طرف متوجہ ہورہا ہے چناچہ انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں، اس مقدس کتاب کو تو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ عمر نے غسل کیا، پاک ہوئے اور کلام اللہ کو ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئے جب طہ سے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت (اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْاَسْمَا ءُ الْحُسْنٰى) 20۔ طہ 8) (اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے اچھے اچھے نام ہیں) پر پہنچے تو بےاختیار بول اٹھے بار خدایا بلاشبہ تو ہی عبادت کا سزاوار ہے، تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جس کو معبود بنایا جائے اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد وان محمد الرسول اللہ پھر وہ پوری رات انہوں نے اسی طرح جاگ کر گذاری کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد واشوقاہ واشوقاہ کا نعرہ مارتے۔ جب صبح ہوئی تو خباب ابن ارت (جو اس گھر میں پہلے سے موجود اور عمر کے داخل ہوتے ہی کہیں چھپ گئے تھے، اب جو انہوں نے دیکھا کہ عمر کی دنیا ہی بدل چکی ہے، کفر وشرک کا اندھیرا چھٹ گیا ہے اور اسلام کی روشنی نے ان کے وجود کو جگمگا دیا ہے تو) عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے عمر مبارک ہو اللہ نے تمہیں اپنے دین اسلام سے سرفراز کیا، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پوری رات جاگ کر اس دعا میں گذاری تھی کہ الہٰی! ابوجہل یا عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی دعا ہی تھی جو تمہارے قبول اسلام کا پیش خیمہ بنی ہے۔ اس کے بعد عمر تلوار گلے میں ڈال کر آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ ( دارارقم) کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے بنفس نفیس باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا اور دعوت اسلام پیش کی عمر! معبود ان باطل کو چھوڑ کر خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھک جاؤ سرخروئی اسی میں ہے کہ اسلام قبول کرلو، ورنہ تم پر بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کا وہی عذاب نازل ہوگا جو ولید ابن مغیرہ پر نازل ہوا۔ عمر ( یہ پرُ جلال آواز رسالت سن کر) تھر تھر کانپنے لگے، لرزتے مونڈھوں اور تھر تھر اتے ہاتھوں سے تلوار گر پڑی بےساختہ زبان سے نکلا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ ﷺ اور پھر انہوں نے کہا جب ہم لات وعزیٰ کی پرستش کی پوجا پہاڑوں پر اور وادیوں میں (کھلم کھلا) کرتے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عبادت ہم ڈر چھپ کر کریں! انہیں، اللہ کی قسم آج کے بعد اللہ کی عبادت ہم چھپ کر ہرگز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد عمر تمام مسلمانوں کو لے کر کعبہ اقدس میں پہنچے اور وہاں علی الاعلان نماز و عبادت ہوئی (اور اس طرح اللہ نے حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو طاقت و شوکت عطا فرمائی )
Top