مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5985
وعن سعد بن أبي وقاص قال : استأذن عمر رضي الله عنه على رسول الله صلى الله عليه و سلم وعنده نسوة من قريش يكلمنه ويستكثرنه عالية أصواتهن فلما استأذن عمر قمن فبادرن الحجاب فدخل عمر ورسول الله صلى الله عليه و سلم يضحك فقال : أضحك الله سنك يا رسول الله . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب قال عمر : يا عدوات أنفسهن أتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قلن : نعم أنت أفظ وأغلظ . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إيه يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا قط إلا سلك فجا غير فجك . متفق عليه . وقال الحميدي : زاد البرقاني بعد قوله : يا رسول الله : ما أضحكك
حضرت عمر سے شیطان کی خوف زدگی
اور حضرت سعد ابن ابی وقاص بیان کرتے ہیں (ایک دن) حضرت عمر ابن خطاب نے حجرہ نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ ﷺ کے پاس قریش کی چند خواتین یعنی ازواج مطہرات بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، ان کی باتوں کا موضوع (اس) خرچہ میں اضافہ کا مطالبہ تھا (جو آنحضرت ﷺ ان کو پہنچاتے تھے) اور وہ باتیں زور زور سے کررہی تھیں جب حضرت عمر اجازت طلب کرکے اندر داخل ہونے لگے تو وہ خواتین (چھپنے کے لئے) آنحضرت ﷺ کے پاس سے اٹھ کر پردہ کے پیچھے چلی گئیں۔ حضرت عمر اندر داخل ہوئے تو (دیکھا کہ) رسول کریم ﷺ مسکرا رہے ہیں، حضرت عمر نے (آپ ﷺ کی مسکراہٹ دیکھ کر) کہا اللہ آپ کے دانتوں کو ہمیشہ خندان رکھے (یعنی دانتوں کا کھلنا مسکراہٹ خوشی کی غماز ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ شاداں وفرحاں رکھے، لیکن آخر وہ کون سی بات ہے جس نے اس وقت آپ ﷺ کو خندان کردیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس بات پر ہنسی آگئی کہ (وہ عورتیں (کہاں تو) میرے پاس بیٹھی ہوئی (شور مچا رہی) تھیں اور (کہاں) تمہاری آواز سنتے ہی (مارے ڈر کے) پردے کے پیچھے بھاگ گئیں، حضرت عمر (یہ سنا تو ان خواتین کو مخاطب کرکے) بولے اری اپنی جان کی دشمن عورتو! (یہ کسی الٹی بات ہے کہ) مجھ سے تو اس قدر خوف کا اظہار ( کہ میری آواز سنتے ہی ڈر کر مارے پردے کے پیچھے جا چھپی ہو) اور رسول کریم ﷺ سے تم ذرا بھی نہیں ڈرتیں (کہ آپ کے پاس بیٹھ کر شور مچا رہی تھیں؟ ) ان خواتین نے جواب دیا ہاں (تم سے ڈرنا ہی چاہے) کیونکہ تم نہایت سخت گو ہو (جب کہ رسول کریم ﷺ نہایت خوش مزاج اور خوش خلق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کا لعلیٰ خلق عظیم اور ولوکنت فظ غلیظ القلب لانفضومن خولک رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن خطاب! چھوڑو اور کوئی بات کرو (ان عورتوں نے جو جواب دیا ہے اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (تم وہ شخص ہو کہ) شیطان تمہیں دیکھ لیتا ہے تو اس راستہ سے کترا کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ جس پر تم چلتے ہو، (بخاری ومسلم) اور حمیدی نے (اپنی کتاب جامع بین الصحیحین میں) کہا ہم برقانی نے (جوخوازم کے ایک گاؤں برقان کے رہنے والے تھے اور مشہور محدث ہیں) حضرت عمر کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کس چیز نے آپ کو ہنسایا ہے؟۔

تشریح
اور باتیں بھی زور زور سے کررہی تھیں یعنی ان کی آواز پر حاوی تھی! پس اس بارے میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب رسول کریم ﷺ کے سامنے شور مچانے یعنی آپ کی آواز اونچی آواز میں بولنے کی ممانعت قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھی اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ ان سب کی آوازیں مل کر پر شور ہوگئی تھیں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ اگر چند آدمی ایک ساتھ آہستہ آہستہ بھی بولتے ہیں تو سب کی آوازیں مل کر پر شور ہوجاتی ہیں، یہ صورت نہیں تھی کہ ان میں سے ہر ایک کی یا کسی ایک کو تنہا آواز اس حد سے بلند تھی جس کی ممانعت آئی ہے۔ ان دونوں احتمالوں کو ملاعلی قاری نے نقل کیا ہے اور پھر لکھا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ الفاظ حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی آوازاتنی زیادہ بلند تھی کہ آنحضرت ﷺ کی آواز سے اونچی ہوگئی تھی اور جب یہ بات ثابت ہی ہوتی تو پھر ارشاد ربانی یایہا الذین امنو لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی الایۃ کے تحت کوئی اشکال بھی وارد نہیں ہوتا، الفاظ حدیث سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات عام طور پر آنحضرت ﷺ کے سامنے جس دھیمے لب و لہجہ میں اور جس دھیمی آواز میں بات کیا کرتی تھیں اس موقع پر ان کی آواز اس عادت ومعمول سے ذرا کچھ بلند ہوگئی تھی جو نہ تو حد ادب سے تجاوز تھی اور نہ آنحضرت ﷺ خوش خلقی اور خوش مزاجی کی ناگواری کا باعث بنی تھی۔ اس راستہ سے کترا کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے مطلب یہ کہ تمہاری ہیبت اتنی ہے کہ شیطان تمہارے تصور سے بھی کانپتا ہے، اس کی اتنی مجال بھی نہیں ہوتی کہ تمہارے سامنے آجائے جس جگہ تم ہوگے وہاں شیطان کا گزر بھی نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ایک روایت میں یوں آیا ہے شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے، واضح رہے کہ فج کے معنی کشادہ راستہ کے آتے ہیں اگرچہ احتمال یہ ہے کہ فج سے مطلق راستہ مراد ہے خواہ وہ تنگ ہو یا کشادہ تاہم زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ لفظ یہاں اپنے ظاہری معنی یعنی کشادہ راستہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ شیطان عمر کو چوڑے اور کشادہ راستہ پر بھی دیکھ کر کترا جاتا ہے اور دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہے تو اس کشادہ راستہ کے کسی ایک کنارے سے گزر سکتا ہے لیکن اس پر تو عمر کا خوف اور ان کی ہیبت ہی اتنی سوار ہے کہ وہ سرے سے اس راستہ کی طرف آنے ہی سے گھبرا تا ہے، جس پر عمر چل رہے ہوں!
Top