مشکوٰۃ المصابیح - حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5981
عن عمر ذكر عنده أبو بكر فبكى وقال : وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال : والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه و سلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه و سلم ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه و سلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ما لك يا أبا بكر ؟ قال : لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه و سلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته وأما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه و سلم ارتدت العرب وقالوا : لا نؤدي زكاة . فقال : لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه . فقلت : يا خليفة رسول الله صلى الله عليه و سلم تألف الناس وأرفق بهم . فقال لي : أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام ؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين أينقص وأنا حي ؟ . رواه رزين
حضرت ابوبکر کے دو عمل جو دوسروں کی ساری زندگی پر بھاری ہیں
سیدنا عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ (ان کی پاکیزہ وبلند قدر زندگی کو یاد کر کے) رونے لگے اور پھر بولے مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدروقیمت کے اعتبار سے) حضرت ابوبکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کے) دنوں میں سے ایک دن تھا۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کی) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا، جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت ﷺ نے غار میں داخل ہونا چاہا) تو حضرت ابوبکر نے کہا اللہ کے واسطے آپ ﷺ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ ﷺ کو۔ اور یہ (کہہ کر) حضرت ابوبکر (آنحضرت ﷺ سے پہلے غار میں داخل ہوگئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور جو دو سوراخ (اس وجہ سے) باقی رہ گئے تھے (ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں (کی ایڑیاں) اڑا کر بیٹھ گئے (تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے) پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے! چناچہ رسول کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر کی گود میں رکھ کر سوگئے، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم ﷺ جاگ نہ جائیں۔ آخر (شدت تکلیف سے) ان کی آنکھوں سے بےاختیار آنسونکل گئے اور رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی) آپ ﷺ نے (ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو) پوچھا ابوبکر! یہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے) کاٹ لیا ہے آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) اپنا مبارک لعاب دہن (ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر) ٹپکا دیا اور (تکلیف واذیت کی) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی وہ فورا جاتی رہی۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرارپائیں) وہ دن تھا جب رسول کریم ﷺ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی۔ اور بعض عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے ان (قبائل کے) لوگوں نے کہا تھا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ ( زکوٰۃ میں اونٹ کے پاؤں باندھنے کے بقدر) رسی بھی دینے سے انکار کریں گے تو یقینا میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے (ان کا یہ فیصلہ سن کر) عرض کیا تھا اے خلیفہ رسول اللہ ﷺ! (یہ بڑا نازک موقع ہے) آپ کو لوگوں سے الفت و خیر سگالی کا برتاؤ اور نرمی کا سلوک کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر نے ( بڑے تیکھے لہجہ میں) مجھے جواب دیا تھا کیا تم اپنے زمانہ جاہلیت ہی میں غیور وبہادر اور قوی وغصہ ور تھے؟ اور اب اپنے زمانہ اسلام میں بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو؟ اس حقیقت کو نہ بھولو کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور دین کامل ہوچکا ہے۔ ایسی صورت میں دین کمزور وناقص ہوجائے، جسے میں اپنی زندگی میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا (رزین )

تشریح
اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی یعنی اس رات میں غار ثور کے سوارخ سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو جو ڈسا تھا اس وقت تو اس کے زہر کا اثر آنحضرت ﷺ کے لعاب مبارک کی برکت سے زائل ہوگیا تھا۔ لیکن پھر اس واقعہ کے عرصہ دراز کے بعد حضرت ابوبکر کی آخر عمر میں اس زہر کے اثرات نے عود کیا اور آخر کار اسی کے سبب سے ان کی موت ہوئی۔ اس طرح حضرت ابوبکر کو وہ مرتبہ ملا جو اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو ملتا ہے کیونکہ جس زہر کے اثر سے ان کا انتقال ہوا وہ ان کو اس وقت پہنچا تھا۔ جب انہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کے لئے سفر ہجرت میں اللہ کے رسول کی معیت اختیار کی اور اللہ کے رسول کو کسی بھی ضرر وگزند سے محفوظ رکھنے کے لئے خود کو ہر ضرر وگزند کے آگے کردیا تھا، اثرات کے عود کرنے ایسا ہی قصہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، غزوہ خیبر کے موقع پر بھنی ہوئی بکری کے گوشت میں زہر ملا کر آپ ﷺ کو دیا گیا تھا، اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے اس زہر کے مضرات سے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا لیکن مرض الموت میں پھر اسی زہر کے اثرات ظاہر ہوگئے تھے ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے ان قبائل کا زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں یہ کہنا، انکار کے طور پر تھا یعنی یا تو وہ سرے سے وجوب زکوٰۃ ہی کے منکر ہوگئے تھے، یا علی الاعلان وہ تارک زکوٰۃ ہوگئے تھے۔ اس کی تفصیل پیچھے کتاب ال زکوٰۃ میں گزر چکی ہے۔ ہمارے بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو شرعی طور پر حکم دیا جائے کہ زکوٰۃ ادا کرو اور وہ شخص جواب دے کہ نہیں، میں زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، تو وہ شخص کافر ہوجائے گا۔ اگر یہ لوگ رسی بھی دینے سے مجھے انکار کریں گے یہ لومنعونی عقالا کا ترجمہ ہے! عقال دراصل اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اونٹ کے پاؤں باندھے جاتے ہیں اگر کسی شخص کے پاس اونٹ ہوں اور ان اونٹوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہو اور پھر وہ نصاب کے مطابق ایک یا ایک سے زائد اونٹ زکوٰۃ میں نکالے۔ تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ محصل زکوٰۃ کو عقال سمیت اونٹ سپرد کرے۔ کیونکہ مالک ( زکوٰۃ ادا کرنے والے) کو لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ میں نکالی گئی چیز (خواہ روپیسہ ہو یا کوئی جانور وغیرہ) زکوٰۃ لینے والے کے قبضہ اور سپردگی میں دے، ظاہر ہے کہ اونٹ پوری طرح قبضہ وسپردگی میں اسی وقت آسکتا ہے۔ جب وہ عقال کے ساتھ (یعنی رسی وغیرہ سے بندھا ہوا) لیا جائے۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے۔ عقال اصل میں اونٹ یا بکری کی ایک سال کی زکوٰۃ کو کہتے ہیں، ویسے تو لغت میں عقال کے یہ دونوں معنی آئے ہیں لیکن زیادہ مشہور و متعارف معنی اول یعنی رسی ہی ہے۔ صاحب قاموس نے اس لفظ کو دوسرے معنی میں ذکر کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ حضرت ابوبکر کے الفاظ لو منعونی عقالا میں عقل کے یہی معنی مراد ہیں یعنی اونٹ یا بکری کی ایک سال کی زکوٰۃ، ایک روایت میں عقالا بجائے عناقا کا لفظ نقل کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں بکری کا وہ بچہ جو پورے ایک سال کانہ ہوا ہو۔ بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو ان الفاظ کے ذریعہ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی رائے کے خلاف گویا شدید ناگواری کا اظہار کیا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے اور تمہارا زمانہ جاہلیت تھا اس وقت تو تم بڑے بہادر بھی تھے اور غیور بھی، ذرا ذرا سی بات پر تمہیں اتنا غصہ آجاتا تھا کہ تلوار سونت کر کھڑے ہوجاتے تھے مگر اب تمہیں کیا ہوا ہے کہ اسلام کے اتنے بڑے حکم سے انکار کرنے والوں کے تئیں نرمی ومروت کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ مجھے دے رہے ہو اور ان مرتدوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے مجھے روکنا چاہتے ہو۔ یہ مشورہ تم جیسے بہادر اور غیور مسلمان کے شایان شان نہیں ہے، یہ تو نری بزدلی اور مداہنت کی بات ہے ان عرب قبائل کے بارے میں حضرت ابوبکر کا یہ سخت رویہ اور ان کا بعزیمت فیصلہ دراصل ان کی بےمثال شجاعت وبہادری اور ان کی زبردست دینی حمیت و غیرت کا غمازہ ہے اگرچہ حضرت عمر کی مذکورہ رائے میں حضرت علی بھی شریک تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت ابوبکر کی باکمال بصیرت اور دور اندیشی نے اس رائے کو اہمیت نہیں دی اور پوری جرأت کے ساتھ ان مرتدوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا ان کی پختگی و مضبوطی کو دیکھ کر حضرت عمر کو اپنی رائے بدلنا پڑی اور نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اسی موقع پر برملا اعتراف کیا کہ اب اللہ نے میرا سینہ کھول دیا ہے۔ اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہی بات صحیح وصواب ہے جو حضرت ابوبکر کے فیصلہ کی صورت میں سامنے آئی ہے بلکہ وہ اس واقعہ کے بعد بھی اکثر حضرت ابوبکر کے اس باعزمیت فیصلہ کی تعریف کیا کرتے تھے اور جیسا کہ اس حدیث میں ہے، یہاں تک کہا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر کی زندگی کا محض یہی ایک فیصلہ اتنا عظیم کارنامہ ہے کہ اگر میری پوری زندگی کے نیک اعمال ان کے اس ایک عمل کے برابر قرار پاجائیں تو میں اپنی بڑی خوش بختی تصور کروں۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور یہ بات حضرت ابوبکر نے اس معنی میں کہی کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ اس دنیا میں موجود تھے، دینی ہدایت و راہنمائی براہ راست وحی کی صورت میں حاصل ہوجایا کرتی تھی، مگر اب صورت حال بدل چکی ہے، اجتہاد کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے جو ہمیں کسی ایسے پیش آمدہ کے مسئلہ میں کہ جو قرآن و حدیث میں واضح طور پر مذکور نہ ہو صحیح فیصلہ پر پہنچا سکے، لہٰذا کسی بھی دینی معاملہ و مسئلہ میں رائے دیتے وقت اچھی طرح غور وفکر کرلینا چاہئے اور معاملہ کے تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ اجتہاد کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم کے مطابق دین چونکہ اللہ کے رسول کے ذریعہ اپنی مکمل صورت میں ہم تک پہنچا ہے اس لئے خلیفہ رسول ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ دین کی اس کی اصل اور مکمل صورت کے ساتھ حفاظت کروں اور کسی بھی ایسے فتنہ کو سر نہ اٹھانے دوں جس سے دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
Top