مشکوٰۃ المصابیح - حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5976
وعن عمر قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم أن نتصدق ووافق ذلك عندي مالا فقلت : اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما . قال : فجئت بنصف مالي . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما أبقيت لأهلك ؟ فقلت : مثله . وأتى أبو بكر بكل ما عنده . فقال : يا أبا بكر ؟ ما أبقيت لأهلك ؟ . فقال : أبقيت لهم الله ورسوله . قلت : لا أسبقه إلى شيء أبدا . رواه الترمذي وأبو داود
ابو بکر یہاں بھی سبقت لے گئے
اور حضرت عمر فاروق ؓ بیان کرتے ہیں (ایک موقع پر) رسول کریم ﷺ نے صدقہ (یعنی اللہ کی راہ میں اپنے اپنے مال کا کچھ حصہ پیش کرنے) کا حکم ہمیں دیا اور آپ کا یہ حکم مال کے اعتبار سے میرے موافق پڑگیا (یعنی حسن اتفاق سے اس وقت میرے پاس بہت مال ودھن تھا) لہٰذا میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں کسی دن ابوبکر سے بازی لے جاسکتا ہوں تو وہ آج کا دن ہے کہ ( اپنے مال کی زیادتی وفراوانی سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستہ میں پیش کروں گا اور) اسے معاملہ میں ان کو پیچھے چھوڑ دوں گا۔ حضرت عمر کہتے ہیں، پس میں نے آدھا مال لا کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، رسول کریم ﷺ نے ( اتنا زیادہ مال و اسباب دیکھ کر) مجھ سے پوچھا گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا، جتنا لایا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں، اس کے بعد حضرت ابوبکر آئے اور ان کے پاس جو کچھ تھا سب لا کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا، ان کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔ (حضرت عمر کہتے ہیں کہ) میں نے دل میں کہا ابوبکر پر میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکوں گا۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
اور ان کے پاس جو کچھ تھا ان الفاظ سے اشارۃ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ حضرت عمر اپنے مال کا جو آدھا حصہ لے کر آئے تھے وہ شائد مالیت و مقدار کے اعتبار سے حضرت ابوبکر کے مال و اسباب سے زیادہ تھا لیکن اس اعتبار سے کہ حضرت عمر اپنا آدھا مال تو گھر والوں کے لئے چھوڑ آئے تھے اور حضرت ابوبکر اپنے گھروالوں کے لئے کچھ بھی چھوڑے بغیر سب کچھ لے کر آگئے تھے فضیلت کا مقام حضرت ابوبکر ہی کو حاصل ہوا حقیقت یہ ہے کہ اصل قیمت جذبہ ایثار کی ہوتی ہے۔ ایک شخص کے پاس دس لاکھ روپے ہوں اور ان میں سے پانچ لاکھ روپے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو یقینا اس کو بڑا مرتبہ ومقام ملے گا لیکن اس سے بڑا مقام و مرتبہ اس شخص کا ہوگا جس کی کل کائنات پانچ سو روپے ہو اور وہ ان پانچ سو روپیوں کو اس بات سے بےنیاز ہو کر اللہ کی راہ میں خرچ کردے کہ بعد میں اس کی اور اہل و عیال کی ضرورت کا کیا ہوگا، اسی حقیقت کے پیش نظر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے افضل الصدقہ جہد المقل (افضل صدقہ وہ ہے جو کم مال والا ایثار کرکے نکالے )۔ اللہ اور اللہ کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہون اس جواب کے ذریعہ حضرت ابوبکر نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا و خوشنودی ہی میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے دونوں جہاں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، اس سرمایہ کا مقابلہ میں دنیاوی مال و اسباب کی بڑی سے بڑی پونجی بےوقعت ہے۔ یا حضرت ابوبکر کے جواب کا یہ مطلب تھا کہ میرے گھر میں جو کچھ مال و اسباب تھا وہ سب میں لے کر آیا ہوں اور اللہ کی راہ میں پیش کردیا ہے جہاں تک گھر والوں کی ضروریات کا سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان، اس کی رزاقیت اور اس کے رسول کی امداد واعانت کا یقین ان کے لئے کافی ہے۔ اگر حضرت ابوبکر کا تمام مال حضرت عمر کے آدھے مال سے زیادہ تھا تو اس میں فضیلت ابوبکر بلاشک وشبہ ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر ان کا مال حضرت عمر کے مال سے کم بھی رہا تو بھی ان کی فضیلت اس اعتبار سے تسلیم کی جائے گی کہ انہوں نے اپنا سب کچھ لا کر اللہ کی راہ میں پیش کردیا تھا۔ میں ابوبکر پر کبھی بھی سبقت نہ لے جاسکوں گا، حضرت عمر نے سوچا تھا کہ ہر نیک کام میں ابوبکر مجھ پر سبقت لے جاتے ہیں آج ایسا موقع ہے کہ میں ان کو پیچھے چھوڑ دوں گا، مگر جب انہوں نے حضرت ابوبکر کا کامل جذبہ ایثار و اطاعت دیکھا تو بول اٹھے کہ سبقت لے جانے کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہونے کے باوجود اگر میں آج بھی ان سے پیچھے رہ گیا ہوں تو یقین ہے کہ اب کبھی بھی میں ان پر سبقت نہیں لے جاسکوں گا بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا ما بینکم کما بین کلمتکما (مرتبہ ومقام کا) تمہارے درمیان وہی فرق ہے جو تم دونوں کے (مذکورہ) الفاظ میں پایا جاتا ہے۔
Top