مشکوٰۃ المصابیح - حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5971
وعن ابن عمر قال : كنا في زمن النبي صلى الله عليه و سلم لا نعدل بأبي بكر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترك أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم لا نفاضل بينهم . رواه البخاري وفي رواية لأبي داود قال : كنا نقول ورسول الله صلى الله عليه و سلم حي : أفضل أمة النبي صلى الله عليه و سلم بعده أبو بكر ثم عمر ثم عثمان رضي الله عنهم
زمانہ نبوی میں تمام صحابہ کے درمیان حضرت ابوبکر کی افضیلت مسلم تھی
اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم یعنی صحابہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں (صحابہ میں سے) کسی کو بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے برابر نہیں سمجھتے تھے (بلکہ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ان کو فضیلت دیتے تھے) ان کے بعد حضرت عمر ؓ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کے بعد حضرت عثمان ؓ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے اور پھر حضرت عثمان ؓ کے بعد نبی کریم ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ کہ ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ہم رسول کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے نبی کریم ﷺ کی امت میں آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں پھر عمر اور پھر عثمان۔

تشریح
ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے سے مراد یہ ہے کہ جو صحابہ ایک طرح کی حیثیت اور یکساں خصوصیت و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کے درمیان کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے تھے۔ ورنہ جہاں تک بعض صحابہ کا بعض صحابہ پر افضل ہونے کا سوال ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ اہل بدر اہل احد، اہل بیت الرضوان اور اہل علم صحابہ باقی تمام صحابہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ویسے اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شائد تفاضل بین الاصحاب مراد ہو یعنی (حضرت عثمان کے بعد) پھر کسی اور صحابی کو کسی دوسرے صحابی پر ہم فضیلت نہیں دیتے تھے۔ واضح رہے کہ اہل بیت نبوی کی حیثیت اخص ہے اور اسی وجہ سے ان کا حکم دوسرے تمام صحابہ سے بالکل جدا گانہ نوعیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص نسبت کے اعتبار سے بلاشبہ وہ مخصوص فضیلت رکھتے ہیں جو ان کے علاوہ دوسروں کو حاصل نہیں اور ان کا اپنی مخصوص فضیلت رکھنا اظہر من الشمس ہے، لہٰذا یہاں یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ حضرت عثمان کے بعد حضرت علی کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ہے یا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین، آنحضرت ﷺ کے دونوں چچاؤں یعنی حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس کی فضیلت کا بیان کیوں نہیں ہوا۔ ایک شارح نے لکھا ہے، یہاں صحابہ سے حضرت ابن عمر کی مراد وہ بوڑھے اور عمر رسیدہ صحابہ ہیں جو بارگاہ رسالت میں اصحاب الرائے اور اصحاب مشورہ کی حیثیت رکھتے تھے اور جن سے آنحضرت ﷺ پیش آمدہ معاملات و مسائل میں مشورہ فرمایا کرتے تھے جہاں تک حضرت علی کا تعلق ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جوان اور نوعمر تھے اور اس اعتبار سے مذکورہ صحابہ کے زمرہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اسی بناء پر حضرت ابن عمر نے ان کا ذکر نہیں کیا ورنہ تو حضرت عثمان کے بعد تمام صحابہ پر ان کی فضیلت کا کوئی منکر نہیں ہے اور صحابہ کے درمیان تفاضل بلاشبہ ثابت ہے جیسے اہل بدر، اہل بیت رضوان اور علماء صحابہ کو اور تمام صحابہ پر فضیلت و برتری حاصل ہے۔ امام احمد نے حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہم نے حضرت ابوبکر کو (آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے بہتر و افضل انسان جانتے تھے اور ان کے بعد حضرت عمر کو رہی حضرت علی کی بات تو حقیقت یہ ہے کہ ان کو وہ تین عظیم خصوصیتیں حاصل ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو تو میں خود کو دنیا ومافیہا سے بہتر و افضل جانوں آنحضرت ﷺ نے ان سے اپنی عزیز ترین بیٹی یعنی حضرت فاطمہ کا نکاح کیا اور آپ ﷺ کی نسل انہی کے ذریعہ چلی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے دروازے کے علاوہ اور سب کے دروازے (مسجد نبوی کی طرف) بند کرا دئے تھے، آنحضرت ﷺ نے جنگ خیبر کے دن اپنا نیزہ ان کو عطا کیا اور نسائی کی روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس کے بعد کہا علی کی شان میں مت پوچھو اور نہ ان پر کسی کو قیاس کرو) (ان کا مقام تو یہ ہے کہ) ان کے علاوہ اور سب کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔
Top