مشکوٰۃ المصابیح - حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5969
وعن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه و سلم بعثه على جيش ذات السلاسل قال : فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : عائشة . قلت : من الرجال ؟ قال : أبوها . قلت : ثم من ؟ قال : عمر . فعد رجالا فسكت مخافة أن يجعلني في آخرهم . متفق عليه
مردوں میں سب سے زیادہ محبت کہہ کر ابوبکر سے تھی
اور حضرت عمرو ابن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو ایک لشکر کا امیر (کمانڈر) بنا کر ذات السلاسل بھیجا جو ایک جگہ کا نام ہے) وہ بیان کرتے ہیں کہ (لشکر کی روا انگی سے پہلے یا واپسی کے بعد) جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ سے (کہ عورتوں میں وہی محمد ﷺ کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں) میں نے عرض کیا میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا (کہ مردوں میں سب سے زیادہ عزیز اور محبوب آپ ﷺ کے نزدیک کون ہے) آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ کے باپ یعنی ابوبکر صدیق ؓ، میں نے پوچھا ان کے بعد پھر کون (آپ کو زیادہ عزیز و محبوب ہے؟ ) فرمایا عمر اس کے بعد (میرے پوچھنے کے مطابق) آپ ﷺ نے متعدد لوگوں کا ذکر کیا اور پھر میں خاموش ہوگیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آئے (یعنی جب آپ ﷺ نے میرے پوچھنے پر دوسرے لوگوں کے نام لیتے رہے تو پھر میں نے آگے نہ پوچھنا ہی بہتر جانا کہ میرا نام کہیں آخر میں نہ آئے )۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا یعنی حضرت عمرو ین العاص کی مراد یا تو ان سب مردوں سے تھی جو آپ ﷺ کے زمانے میں تھے یا یہ کہ اس لشکر کے لوگ مراد تھے جس کا امیر ان کو بنایا گیا تھا۔ حضرت عمرو بن العاص کے اس سوال کا سبب دراصل یہ تھا کہ جب ان کو مذکورہ لشکر کا امیر بنا کر دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا تو بعد میں ان کی مدد کے لئے دو سو مجاہدین اسلام کا ایک اور لشکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کی کمانڈری میں روانہ کیا گیا ان دو سو مجاہدین میں انصار و مہاجرین میں سے جو بڑے بڑے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ان میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے اور لشکر کی امامت نماز حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اسلام کو فتح عطا فرمائی اور دشمنان دین بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس موقعہ پر حضرت عمرو بن العاص ؓ کے خیال میں یہ بات آئی کہ اس لشکر کے تمام لوگوں میں میرا مرتبہ سب سے بلند ہے جبھی تو مجھ کو ان سب کا امیر بنایا گیا ہے۔ اور ان کو میری کمان میں دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا۔ چناچہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو آنحضرت ﷺ سے مذکورہ سوال کیا، آنحضرت ﷺ نے ان کو جواب دیا اس سے ان کو معلوم ہوگیا کہ میرے خیال میں جو بات آئی وہ صحیح نہیں تھی۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے یعنی یہ کہ حضرت عمروبن العاص ؓ کے سوال کی مراد اس لشکر کے لوگوں سے تھی، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے پہلی مرتبہ پوچھنے پر جو جواب دیا۔ اس سے پہلے احتمال کی تائید ہوتی ہے کہ ان کی مراد آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے تمام لوگوں سے تھی۔
Top