مشکوٰۃ المصابیح - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 5964
وعن عمر بن الخطاب قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : سألت ربي عن اختلاف أصحابي من بعدي فأوحى إلي : يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أقوى من بعض ولكل نور فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى قال : وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أصحابي كالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم . رواه رزين
صحابہ کی اقتداء ہدایت کا ذریعہ ہے
اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں نے اپنے پروردگار سے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف کے بارے میں پوچھا جو (شریعت کے فروعی مسائل میں) میرے بعد واقع ہوگا؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مجھ کو آگاہ کیا کہ اے محمد! ﷺ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان پر ستارے، (جس طرح) ان ستاروں میں سے اگرچہ بعض زیادہ قوی یعنی زیادہ روشن ہیں لیکن نور (روشنی) ان میں سے ہر ایک میں ہے (اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں سے ہر ایک اپنے اپنے مرتبہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق نور ہدایت رکھتا ہے) پس جس شخص نے (علمی وفقہی مسائل میں) ان اختلاف میں سے جس چیز کو بھی اختیار کرلیا میرے نزدیک وہ ہدایت پر ہے حضرت عمر ؓ کہتے ہیں اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں (پس تم ان کی پیروی کرو) ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔ (رزین)

تشریح
ایسے ہیں جیسے آسمان کے ستارے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح گھپ اندھیری رات میں آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے مسافروں کو دریا وجنگل کے راستوں کا نشان بتاتے ہیں جس کی قرآن کریم نے ان الفاظ میں آیت (وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ ) 16۔ النحل 16) (اور ستاروں کے ذریعہ وہ راستہ پاتے ہیں) میں اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی سچائی کے راستے کو ظاہر کرنے اور برائی کے اندھیروں کو دور کرنے والے ہیں کہ ان کے نورانی وجود، ان کے اخلاق و کردار اور ان کی روایات وتعلیمات کی روشنی میں راہ حق نمودار ہوتی ہے اور بدی کا اندھیرا چھٹ جاتا ہے۔ میرے نزدیک وہ ہدایت پر ہے اس سے ثابت ہوا کہ ائمہ دین کا باہمی اختلاف امت کے لئے رحمت ہے، لیکن جیسا کہ علامہ طیبی (رح) نے وضاحت کی ہے اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو دین کے فروعی وذیلی مسائل میں ہو نہ کہ اصول دین میں اور سید جمال الدین نے لکھا ہے بظاہر یہ بات زیادہ صحیح ہے کہ اس حدیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جس اختلاف کی طرف اشارہ ہے، اس سے وہ اختلاف مراد ہے۔ جو دینی معاملات و مسائل میں رونما ہو نہ کہ اختلافات جو دینوی معاملات میں رونما ہوئے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس اختلاف پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا، جو خلافت وامارت کے سلسلہ میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان رونما ہوئے۔ لیکن اس موقع پر ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ خلافت وامارت سے متعلق رونما ہونے والے اختلافات بھی فروع دین میں اختلاف کے زمرہ میں آتے ہیں کیونکہ اس بارے میں ان کے درمیان جو اختلاف واقع ہوا وہ اجتہادی تھا نہ کہ کسی دنیاوی غرض اور نفسانی جذبہ و خواہش کے تحت، جیسا دنیاوی بادشاہوں کے ہاں ہوتا ہے۔۔ جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤگم چونکہ ولکل نور ( نور ان میں سے ہر ایک میں ہے) کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا کہ ہر صحابی اپنے اپنے مرتبہ و استعداد کے مطابق علم فقہ کا نور ہدایت ضرور رکھتا ہے اور اس اعتبار سے کوئی بھی صحابی دین و شریعت کے علم سے خالی نہیں ہے، اس لئے جو بھی صحابی اپنے مرتبہ و استعداد کے مطابق دین و شریعت کی جو بھی بات بیان کرتا ہے، اس کی پیروی ہدایت کی ضامن ہوگی۔ واضح رہے کہ اس حدیث اصحابی کالنجوم الخ میں علماء نے کلام کیا ہے، چناچہ ابن حجر (رح) نے اس حدیث پر طویل گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ ابن حزام کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع باطل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بیہقی کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ مسلم کی ایک حدیث سے اس حدیث کے بعض معنی ثابت ہوتے ہیں، مسلم کی حدیث میں ہے النجوم امنۃ السماء ( ستارے آسمان کے محافظ و امین ہیں) اور پھر اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں و اصحابی امنۃ لامتی (اور میرے اصحاب میری امت کے امین ومحافظ ہیں )
Top