مشکوٰۃ المصابیح - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 5958
عن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أكرموا أصحابي فإنهم خياركم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يظهر الكذب حتى إن الرجل ليحلف ولا يستحلف ويشهد ولا يستشهد ألا من سره بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان ثالثهم ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن
صحابہ کی تعظیم وتکریم لازم ہے
حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے اصحاب کی تعظیم و تکریم کرو، کیونکہ وہ تمہارے برگزیدہ اور بزرگ ترین لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں یعنی تابعین اور پھر وہ لوگ جو ان (تابعین) کے قریب ہیں یعنی تبع تابعین اور اس کے بعد جھوٹ ظاہر ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک شخص قسم کھائے گا، درآنحالیکہ اس سے قسم کھانے کا مطالبہ نہ ہوگا اور گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی دینے کو نہ کہا جائے گا یاد رکھو جو شخص جنت کے بالکل درمیان (کہ جو جنت کی بہترین جگہ ہے) رہنا چاہے تو اس کو چاہے کہ جماعت کو لازم پکڑے کیونکہ شیطان اس شخص کا ساتھی بن جاتا ہے جو (خود رائے اور جماعت سے) علیحدہ و تنہا ہوتا شیطان تو دو شخصوں سے بھی (جو اجتماعیت و اتحاد کے ساتھ ہوں) دور بھاگتا ہے اور ہاں کوئی مرد کسی اجنبی یعنی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہے، کیونکہ ان کا تیسرا ساتھی شیطان ہوتا ہے، (جوان دونوں کو بہکانے سے ہرگز نہی چوکے گا) نیز جس شخص کو اس کی نیکی خوشی و اطمینان بخشے اور اس کی بدی اس کو غمگین ومضطرب کردے وہ مؤمن ہے۔

تشریح
اس حدیث میں بھی اسلام کے ابتدائی تینوں قرنوں کے لوگ یعنی جماعت صحابہ طبقہ تابعین اور طبقہ تبع تابعین کی فضیلت تمام امت پر ظاہر کی گئی ہے کہ یہ افراد امت کے وہ تین طبقے ہیں جو امت کے سب سے بہترین لوگ ہیں ملت کے سردار ومقتدا ہیں اور ان تینوں طبقوں کے لوگوں میں اور ان کے زمانوں میں غلبہ صدق ودیانت اور عفت و امانت کو حاصل تھا۔ یہاں تک کہ ان طبقوں کے جن لوگوں کے لوگوں کے احوال و کوائف غیر معلوم تھے (جنہوں اصطلاح میں مستور الحال کہا جاتا ہے) ان کو بھی عادل مانا گیا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کسی شاذونادر کے بارے میں ایسا نہ کہا جائے کیونکہ ان طبقوں کے لوگ بھی بہر حال غیر معصوم انسان تھے۔ پھر ان تینوں طبقوں میں سے بھی طبقہ اول یاقرن اول کے لوگ یعنی صحابہ کرام کی عظمت ومنزلت کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں، ان کی تعظیم و تکریم کرنا ہر امتی پر لازم ہے۔ یہ حکم ان کی زندگی میں بھی ہر مسلمان کے لئے تھا اور ان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہا اور قیامت تک اسی طرح باقی رہے گا، کوئی شخص علم وفضل ذہانت وذکاوت تقوی و پرہیزگاری اور عزیمت و استقامت کے کتنے ہی بلند سے بلند ترمقام پر پہنچے جائے مگر وہ صحابی رسول کا ہمسر نہیں ہوسکتا، صحابی رسول کا ناقد نہیں بن سکتا اور صحابہ رسول کے عمل و کردار کی نکتہ چینی نہیں کرسکتا اگر کوئی شخص ایسی جرأت کرتا ہے تو وہ ارشاد رسول ﷺ کے خلاف کرتا ہے اور صحابہ رسول کی عزت و حرمت مجروح کرنے کے سبب اپنا ایمان خطرہ میں ڈالتا ہے۔ بلاشبہ صحابہ کرام امت کے وہ سب سے برگزیدہ اور نیک ترین فرد ہیں جو بار گارہ رسالت کے مصاحب خادم اور حاضر باش تھے۔ جو ذات رسالت پناہ ﷺ کے علم وعمل کے براہ راست خوشہ چین اور تربیت یافتہ تھے، ان میں سے جن لوگوں کو صحبت و خدمت کا شرف حاصل نہیں ہوا اور محض جمال باکمال کے دیدار ہی کی سعادت سے بہروہ ہوئے۔ ان کا مقام بھی امت کے بڑے سے بڑے عالم وفاضل عابد وزاہد اور غازی و مجاہد سے بڑھ کر ہے، شیخ ابوطالب مکی نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ جمال رخ مصطفیٰ ﷺ پر پڑنے والی ایک نظر سے اتنا کچھ حاصل ہوجاتا تھا اور مطلب براری کی وہ دولت مل جاتی تھی جو اوروں کو بڑے بڑے چلوں اور خلوتوں سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی، ایمان عیانی اور یقین شہودی کا جو مقام ان کو نصیب تھا۔ اس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں تھا۔ اس کے بعد جھوٹ ظاہر ہوجائے گا یعنی ان تینوں زمانوں میں تو دین اپنی اصلی حالت میں رہے گا اور اخلاص وللہیت سے سارے کام انجام پاتے رہیں گے، لیکن قرن ثالث یعنی تبع تابعین کے زمانہ کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ دین ودیانت کے لئے محفوظ ومامون نہیں ہوگا۔ گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تبع تابعین کے قرن کے خاتمہ کے بعد بدعات اور نفسانی خواہشات و جذبات کی کار فرمائی کا دور شروع جائے گا اگرچہ غیر اسلامی افکار ونظریات کے حامل لوگوں جیسے معتزلہ، ریہ اور مرجیہ وغیرہ کا ظہور وشیوخ اور بعد کے زمانوں میں ہوا لیکن ان سے پہلے بدعات اور خود رائی کا ظہور وشیوع ہوچکا تھا۔ جماعت کو لازم پکڑے میں جماعت سے مراد ملت کا سواد اعظم ہے۔ مطلب یہ کہ دینی وملی مسائل و معاملات میں انہی اصول وتعلیمات کو راہنما بنایا جائے، جو جمہور صحابہ وتابعین اور سلف صالحین سے منقول ہیں اور انہی کی متابعت اختیار کی جائے ان سے صرف نظر کر کے خود رائے بننا اپنے آپ کو شیطان کا کھلونا بنانا ہے، پس اس حکم میں صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کی محبت اور ان کی تعظیم و توقیر بھی شامل ہے۔ وہ مؤمن ہے یعنی کامل کی علامت یہ ہے کہ نیکی کرنے سے خوش و مطمئن ہو اور اگر بدی وجود میں آئے تو رنجور وناخوش ہو۔ اسی بات کو علماء نے دل کے زندہ وحساس ہونے کی علامت قرار دیا ہے، چناچہ جو شخص نہ تو نیکی سے خوش ہوتا ہے اور نہ بدی سے ناخوش ومضطرب ہوتا ہے وہ ایسے انسان کی مانند ہے جس کا دل مرچکا ہو، جس کے احساسات فنا ہوچکے ہوں، جیسا کہ منافق جو قیامت وآخرت کے عقیدہ سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک نیکی اور بدی دونوں برابر ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولاتستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی
Top