مشکوٰۃ المصابیح - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 5955
وعن أبي بردة عن أبيه قال : رفع - يعني النبي صلى الله عليه و سلم - رأسه إلى السماء وكان كثيرا ما يرفع رأسه إلى السماء . فقال : النجوم أمنة للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبت أنا أتى أصحابي ما يوعدون وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون . رواه مسلم
صحابہ کا وجود امت کے لئے امن وسلامتی کا باعث تھا
اور حضرت ابوبردہ ؓ اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعری) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوموسی نے بیان کیا کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ ﷺ اکثر (وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور پھر فرمایا ستارے آسمان کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جس وقت یہ ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان کے لئے وہ چیز آجائے گی جو موعود ومقدر ہے، میں اپنے صحابہ کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہوں، جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جب میرے صحابہ (اس دنیا سے) رخصت ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آپڑے گی جو موعود ومقدر ہے۔ (مسلم)

تشریح
ستارے کا لفظ سورج اور چاند کو بھی شامل ہے۔ اور ستاروں کے جاتے رہنے سے مراد سورج، چاند اور تمام ستاروں کا بےنور ہوجانا ٹوٹ پھوٹ کر گرپڑنا اور معدوم ہوجانا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ اذا الشمس کورت واذا النجوم انکدرت۔ جب (قیامت کے دن) آفتاب بےنور ہوجائے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرپڑیں گے۔ آسمان کے لئے جو چیز موعود ومقدر ہے سے مراد قیامت کے دن آسمانوں کا پھٹ جانا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روئی کے گا لوں کی طرح اڑنا ہے، اس کی خبر قرآن کریم نے اذا السماء انطفرت (جب آسمان پھٹ جائے گا) اور اذا السماء انشقت (جب آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا) الفاظ میں دی ہے۔ صحابہ کے لئے موعود ومقدر چیز سے مراد فتنہ و فساد، اختلاف ونزاعات باہمی جنگ وجدل اور بعض اعرابی قبائل کا مرتد ہوجانا اسی طرح امت کے لئے موعود ومقدر چیز سے مراد بداعتقادی و بدعملی کے فتنوں کا امنڈ پڑنا، بدعات کا زور ہوجانا، مسلمانوں پر دینی وملی سانحات وحادثات کا واقع ہونا، اہل خیر و برکت کا اس دنیا سے اٹھ جانا، اہل شر کا باقی رہنا اور ان (اہل شر) پر قیامت قائم ہونا، پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل خیر کا وجود شر کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب اہل خیر اٹھ جاتے ہیں تو شر کو در آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا وجود آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے شر سے حفاظت کا مکمل ضامن تھا، کسی بھی معاشرے میں فتنہ کی ابتداء مختلف الذہن اور مختلف الخیال لوگوں کی باہمی آویزش اور ایک دوسرے کے خلاف رائے ہوتا تو آنحضرت ﷺ وہ پہلو بیان فرما دیتے جو حقیقت کے مطابق ہوتا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اسی پر جم جاتے تھے۔ اسی صورت میں کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا، جب آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو صورت حال مختلف ہوگئی۔ صحبت رسول ﷺ سے محروم مسلمانوں کی کثرت ہوتی گئی خود رائی کا رجحان پیدا ہونے لگا اور چونکہ اس خود رائی کی بنیاد ذاتی اغراض اور نفسیاتی خواہشات ہوتی تھی اس لئے فتنہ و فساد جنم لینے لگے، وہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی تعداد موجود تھی جو کسی بھی معاملہ میں اپنی ذاتی خواہش اور رجحان کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ ہر معاملہ اور ہر مسئلہ میں آنحضرت ﷺ کے قول یا فعل اور یا دلالت حال سے استناد کرتے تھے اور ذات رسالت پناہ کی صحبت ورفاقت کے انوار سے بھر پور تھے، اس لئے ان کا وجود بہرحال اتنا باعث خیروبرکت تھا کہ فتنوں اور برائیوں کے اندھیرے زیادہ پھیلنے نہیں پائے لیکن جب ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود بھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو انواروبرکات میں بہت ہی کمی آگئی اور تاریکیوں کو بڑھنے پھیلنے کا موقع مل گیا۔ اسی حقیقت کو آنحضرت ﷺ نے ستاروں اور آسمان کی مثال کے ذریعہ پہلے سے بیان فرما دیا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے جسے کہ آسمان کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک چاند سورج اور ستارے اپنی ضیا پاشیوں کے ساتھ موجود ہیں جب یہ ستارے ختم ہوجائیں گے تو آسمان کے وجود کے خاتمہ کا وقت آجائے اور جب آسمان کا وجود ختم ہوجائے گا تو پوری کائنات اپنے عدم کی تاریکی میں گم ہوجائے گی۔ پس صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین ان ستاروں کی مانند ہیں جن کے وجود سے کائنات کو روشنی ملتی ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں جس کی بھی اقتدا کرو گے راہ یاب ہوگے۔
Top