مشکوٰۃ المصابیح - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 5949
افضلیت صحابہ
شرح السنۃ میں ابومنصور بغدادی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمارے تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں سب سے افضل خلفاء اربعہ ہیں اور ان میں بھی ترتیب کا اعتبار ہے یعنی سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں، ان کے بعد حضرت عمر فاروق، ان کے بعد حضرت عثمان غنی اور ان کے بعد حضرت علی۔ خلفاء اربعہ کے بعد سب سے افضل وہ تمام صحابہ ہیں جن کو عشرہ مشبرہ کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ بدر میں شریک تھے، ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ احد میں شریک تھے، ان کے بعد بیعت رضوان میں شریک صحابہ، ان کے بعد وہ انصار صحابہ جنہوں نے دونوں مرتبہ بیعۃ العقۃ الاولی اور بیعۃ العقۃ الثانیہ کے موقع پر مکہ میں آکر آنحضرت ﷺ سے بیعت کی تھی۔ اسی طرح وہ صحابہ جن کو سابقون اولون کہا جاتا ہے یعنی جنہوں نے قبول اسلام میں سبقت کی اور ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے اور جن کو دونوں قبیلوں یعنی بیت المقدس اور کعبہ مکرمہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑہنے کا موقع ملا ان صحابہ سے افضل ہیں جو ان کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت خدیجہ الکبری ؓ کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کون دوسری سے افضل ہے اسی طرح حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں واضح رہے کہ حضرت معاویہ عدول اہل فضل اور خیار صحابہ میں سے ہیں، ان کے بارے میں کوئی بھی برا خیال رکھنا یا ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنا جو مرتبہ صحابیت کے منافی ہو اسی طرح ممنوع جس طرح دوسرے صحابہ کے بارے میں۔ رہی یہ بات کہ بعض صحابہ کے درمیان جو باہمی نزع ہوا، یا باہمی جنگ وجندل کے نوبت آئی تو اس پر بحث وتمحیص کرنا اور اس کوئی نتیجہ نکال کر کسی کی تنقیص کرنا ہمارا مقام نہیں ہے، وہ سارے معاملات ان کے اپنے اجتہاد سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحابی ایسا نہیں تھا جس نے ان معاملات میں نفسانی تقاضوں یا دنیاوی اغراض کے تحت شرکت کی ہو، وہ سب صحابہ اپنے اپنے موقف کے درست اور جائز ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے اور اپنی باہمی لڑائیوں اور تنازعات کی بنا پر ان میں سے کوئی عدول کے زمرہ سے خارج نہیں ہوگا اور نہ اس کی حیثیت اور اس کے مرتبہ میں کوئی نقص آیا، مختصر یہ کہ اہل سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ ان کے بارے میں زبان کھولتے وقت محتاط رہا جائے، ان کے حق میں منہ سے وہی بات نکالی جائے جو تعریف اور بھلائی کی ہو، اگر ان میں سے کسی کے متعلق کوئی ایسی چیز منقول ہو جو بظاہر تعریف کے کام کے خلاف نظر آتی ہو تو اس سے نظر کیا جائے۔ دین و ایمان کی سلامتی اسی میں ہے۔
Top