مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5943
وعن نافع عن ابن عمر أتاه رجلان في فتنة ابن الزبير فقالا : إن الناس صنعوا ما ترى وأنت ابن عمر وصاحب رسول الله صلى الله عليه و سلم فما يمنعك أن تخرج ؟ فقال : يمنعني أن الله حرم دم أخي المسلم . قالا : ألم يقل الله : [ وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ] فقال ابن عمر : قد قاتلنا حتى لم تكن فتنة وكان الدين لله وأنتم تريدون أن تقاتلوا حتى تكون فتنة ويكون الدين لغير الله . رواه البخاري
خلافت کا دعویٰ کرنے سے حضرت عبداللہ بن عمر کا انکار
اور حضرت نافع (جو حضرت عبداللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر سے متعلق ہنگامہ آرائی کے زمانہ میں (ان کی شہادت سے پہلے) دو شخص حضرت عبداللہ ابن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں نے (خلافت وامارت کے بارے میں اختلاف ونزاع اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں) جو کچھ کیا ہے وہ آپ نے دیکھ ہی لیا آپ حضرت عمر فاروق کے بیٹے ہیں ( جو خلیفہ تھے) نیز آپ ﷺ کے صحابی بھی ہیں (اس اعتبار عبد الملک ابن مروان کے مقابلہ پر آپ کہیں زیادہ مستحق ہیں کہ خلافت کا دعویٰ کریں جس کی نااہلیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ اس کے امراء اور گونروں میں حجاج ابن یوسف جیسا ظالم شخص ہے) پھر آخر کیا چیز مانع ہے کہ آپ (خلافت وامارت کے دعوے اور ظالموں سے بدلہ لینے کے اعلان کے ذریعہ) خروج نہیں کررہے ہیں! حضرت عبداللہ ابن عمر نے (یہ سن کر) فرمایا! جو چیز میرے لئے مانع ہے، وہ میرا یہ علم ہے کہ مسلمان بھائی کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے، ان دونوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وقاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ (یعنی لڑو تم لوگوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے)! حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا ہم (آنحضرت ﷺ اور خلفاء راشدین کے ساتھ) ان لوگوں سے یقینا لڑے یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر وشرک کا خاتمہ ہوگیا اور صرف اللہ کا دین اسلام رہ گیا اور (اب) تم یہ چاہتے ہو کہ تم جنگ وجدال کرو یہاں تک ان (مسلمانوں) میں فتنہ پھیل جائے اور غیر اللہ کا دین قائم ہوجائے۔ (بخاری)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے اس جملہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا مقصد اس بات کو اہمیت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ خون ریزی سے اجتناب اور مسلمانوں کے درمیان باہمی جنگ وجدل سے گریز ہیں اپنے لئے ہر حالت میں ضروری سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ مسئلہ خلافت وامارت کی طلب و خواہش کا ہو پس اس جملہ میں علی (میرے لئے) کا لفظ اس مقصد کے تحت استعمال ہوا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسلمان بھائی کا خون بہانا تو ہر شخص کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور غیر اللہ کا دین قائم ہوجائے دراصل ان دونوں شخصوں کا خیال یہ تھا کہ اول تو حضرت عبداللہ ابن عمر اپنی خلافت کا دعویٰ کریں لیکن اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں تو پھر ان کو کم سے کم یہ چاہئے کہ ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائیں جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی خلافت تسلیم نہیں کرتے اور ان کے مقابلہ پر ظالموں اور نااہلوں کی امارت کے وفادار ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عمر کا خیال یہ تھا کہ عام مسلمانون کو باہمی اختلاف ونزاع اور جنگ وجدل سے بچانے کے لئے ایسا کوئی اقدام مناسب نہیں ہے کیونکہ مسلمان کا مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا اور وہ بھی اقتدار وامارت کے سلسلہ میں آخر کار باہمی افتراق و انتشار کی ایک صورت حال کے پیدا ہونے کا موجب بن سکتا ہے جو اسلام کے نظام دین و شریعت کے منرول اور مسلمانوں کی ملی زندگی کو کمزور بنادے، یہاں تک کہ اسلام دشمن طاقتوں کو اپنا غلبہ و تسلط جما لینے کا موقع مل جائے، اسی احساس کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت ابن زبیر کے حق میں یہی بہتر سمجھتے تھے کہ وہ خلافت کے مسئلہ میں قتل و قتال کو ترک کردیں اور یکسوئی اختیار کرکے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
Top