مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5942
وعن أبي نوفل معاوية بن مسلم قال : رأيت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة قال فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر فوقف عليه فقال : السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم أما والله لأمة أنت شرها لأمة سوء - وفي رواية لأمة خير - ثم نفذ عبد الله بن عمر فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله فأرسل إليه فأنزل عن جذعه فألقي في قبور اليهود ثم أرسل إلى أمه أسماء بنت أبي بكر فأبت أن تأتيه فأعاد عليها الرسول لتأتيني أو لأبعثن إليك من يسحبك بقرونك . قال : فأبت وقالت : والله لا آتيك حتى تبعث إلي من يسحبني بقروني . قال : فقال : أروني سبتي فأخذ نعليه ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها فقال : كيف رأيتني صنعت بعدو الله ؟ قالت : رأيتك أفسدت عليه دنياه وأفسد عليك آخرتك بلغني أنك تقول له : يا ابن ذات النطاقين أنا والله ذات النطاقين أما أحدهما فكنت أرفع به طعام رسول الله صلى الله عليه و سلم وطعام أبي بكر من الدواب وأما الآخر فنطاق المرأة التي لا تستغني عنه أما إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا : أن في ثقيف كذابا ومبيرا . فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه . قال فقام عنها ولم يراجعها . رواه مسلم
حجاج کے سامنے حضرت اسماء کی حق گوئی
حضرت ابونوفل معاویہ ابن مسلم تابعی (رح) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ (کی نعش) کو مدینہ (کے راستہ پر واقع مکہ) کی گھاٹی میں (ایک سولی پر لٹکے ہوئے) دیکھا ابونوفل کہتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے اس نعش کے پاس آنا جانا شروع کیا اور دوسرے لوگ بھی آتے جاتے رہے یہاں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ بھی وہاں آئے اور نعش کے سامنے کھڑے ہو کر یوں گویا ہوئے السلام علیک اے ابوخبیب! السلام علیک اے ابوخبیب السلام علیک ابوخبیب! اگاہ ہو، اللہ کی قسم میں تم کو منع نہیں کرتا تھا آگاہ ہو اللہ کی قسم، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا، (تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے کے بعد پھر انہوں نے کہا) آگاہ ہو اللہ کی قسم، بلاشبہ تم وہ شخص تھے جس کو میں جانتا تھا کہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ شب بیدار وشب خیز اور اہل قرابت سے بہت زیادہ احسان و سلوک کرنے والے ہو، آگاہ ہو اللہ کی قسم وہ گروہ جس کی نظر میں تم برے ہو یقینا ایک برا اور بدترگروہ ہے اور ایک روایت میں لامۃ سوئ کے بجائے لامۃ خیر کے الفاظ ہیں اس کے بعد حضرت ابن عمر وہاں سے چلے گئے، پھر جب یہ خبر حجاج کے پاس پہنچی کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے پاس) کھڑے ہو کر ایسا ویسا کہا ہے تو اس نے (فورا) ایک آدمی بھیجا اور نعش کو اس لکڑی (یعنی سولی) پر سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوادیا پھر حجاج نے ابن زبیر کی والدہ حضرت اسماء (دختر حضرت ابوبکر صدیق) کے پاس ایک آدمی بھیجا ( اور ان کو طلب کیا) حضرت اسماء نے اس کے ہاں آنے سے انکار کردیا، حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہلایا کہ یا تو فوراچلی جاؤ ورنہ پھر ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو تمہاری چوٹی پکڑ کر کھنچتا ہوا یہاں لائے گا، ابونوفل کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے پھر انکار کردیا اور حجاج کو کہلابھیجا کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس ہرگز نہیں آوں گا اب تو تو کسی ایسے آدمی کو بھیج کر دیکھ لے جو میری چوٹیاں پکڑ کر مجھے کھینچتا ہوا لے جائے، روای کہتے ہیں کہ حجاج (نے یہ سنا تو آگ بگولا ہوگیا اور بڑے غضب ناک انداز میں) لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو، پھر اس نے اپنی جوتیاں پیروں میں ڈالیں اور اکڑتا اتراتا ہوا تیز تیز چل کر حضرت اسماء کے ہاں پہنچا اور (زہریلے لہجہ میں) ان سے بولا کہ (ذرا بتانا) تم نے اس دشمن اللہ (یعنی اپنے بیٹے ابن زبیر) کے ساتھ سلوک کرنے میں مجھے کیسا پایا! حضرت اسمائ بولیں میں نے تو ایسا پایا کہ تو نے اس کی دنیا تباہ کردی اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کردیا (یعنی اس ظالمانہ قتل نے تجھے عذاب دوزخ کا مستوجب بنادیا ہے اور ہاں مجھے معلوم ہے کہ تو میرے بیٹے ابن زبیر کو (اس کی زندگی میں یا اس کی شہادت کے بعد) دو کمر بند والی عورت کا بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا تھا؟ (تو سن لے) اللہ کی قسم میں بلاشبہ دو کمربند والی عورت ہوں، ایسے دو کمر بند کہ جن میں ایک کمربند تو وہ تھا جس کے ذریعہ میں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کھانا جانوروں سے محفوظ رکھتی تھی اور دوسرا کمر بند عورت کا وہ کمربند تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی اور یاد رکھ ہم سے رسول کریم ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک نہایت درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک درجہ کا مفسد وہلاکو، تو تیرے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ مفسدوہلاکو، جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی تھی تو ہی ہے، راوی ابونوفل کا بیان ہے کہ (یہ الفاظ سن کر) حجاج حضرت اسمائ کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا (مسلم)

تشریح
مدینہ کی گھاٹی سے مراد مکہ شہر کا بالائی سرا ہے جو مشرقی سمت واقع ہے، مدینہ کا راستہ چونکہ اسی جگہ سے گزرتا ہے اور مدینہ سے آنے والے یہیں سے مکہ شہر میں داخل ہوتے تھے اس مناسبت سے اس کو مدینہ کی گھاٹی سے تعبیر کیا گیا جب ظالم حجاج ابن یوسف نے اپنے لشکر جرار کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کو مسجد حرام میں محصور کرکے نہایت بےدردی سے شہید کیا تو بعد میں اس نے نعش مبارک کو مذکورہ جگہ ایک سولی پر لٹکا دیا تھا اور پھر اسی جگہ کے قریب حجون یعنی جنت المعلاۃ میں ان کی تدفین عمل میں آئی لیکن اب تو ان کی قبر کا کوئی نشان باقی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ ان کی قبر کس جگہ تھی، اسی طرح جنت المعلی میں اور جو صحابہ کرام مدفون ہوئے ان کی قبریں بھی متعین و معلوم نہیں ہیں حضرت خدیجہ الکبری کی قبر بھی اسی جنت المعلاۃ میں ہے مگر ان کی قبر بھی اسی طرح غیر معلوم تھی، ایک زمانہ میں کسی بزرگ نے خواب کی بنیاد پر ان کی قبر کا تعین کیا تھا اور اس قبر پر قبہ بھی بنایا گیا تھا اب وہ بھی بےنشان ہے۔ میں نے تم کو اس کام سے منع کیا تھا میں کام سے مراد یزید ابن معاویہ سے خروج اور اپنی خلافت وامارت کا دعویٰ ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر نے کیا تھا اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت خلافت وامارت پر بیٹھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے ان کی اطاعت وبیعت سے انکار کردیا اور مکہ مکرمہ کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی خلافت کا اعلان کردیا۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر نے چونکہ جلیل القدر صحابی اور بلند وبالانسبتوں کے اعتبار سے بہت زیادہ عزت ومنزلت رکھتے تھے اس لئے جلد ہی ان کی خلافت کو قبول کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا اور مختلف علاقوں اور خطوں پر کنڑول حاصل ہوگیا بلکہ جیسا کہ مؤرخین لکھتے ہیں شام کے علاوہ تقریبا ًتمام ہی عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کرلئے گئے۔ یزید کے بعد پھر مروان ابن حکم اور اس کے بعد عبد الملک ابن مروان کی امارت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور بدستور اپنی خلافت کے دعوے اور اقتدار پر قائم رہے لیکن عبد الملک ابن مروان نے ان کے خلاف زبردست فوجی کاروائی کی اور حجاج ابن یوسف ثقفی کو لشکر جرار کے ساتھ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا، حضرت عبداللہ ابن زبیر نے اپنے قلیل ترین ساتھیوں کے ساتھ حجاج کی زبردست فوج کا جس بہادری وپامردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ شجاعت وبہادری اور عزیمت وجرأت کی تاریخ کانادرالمثال کارنامہ ہے آخر کار جام شہادت نوش کیا، بدبخت حجاج نے ان کا سرتن سے جدا کرکے مدینہ منورہ روانہ کیا اور باقی جسم سولی پر لٹکا دیا، اس سے پہلے یہی لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا، اس وقت یزید زندہ تھا (اس لشکر نے مدینہ منورہ کو جس طرح تباہ و برباد کیا اور وہاں کے لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا وہ واقعہ حرہ کے نام سے اپنی لرزہ خیز تفصیل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ پس حضرت عبداللہ ابن عمر نے سولی پر لٹکی ہوئی حضرت زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر انہی دلدوز واقعات اور ظالم وفاسد لوگوں کے اس گروہ کی وحشیانہ کاروائیوں پر تاسف وتحسر کا اظہار کرتے ہوئے حضرت ابن زبیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا کرتا تھا کہ تم ان ظالموں اور بد کر داروں کے مقابلے نہ آؤ اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرکے یکسو ہوجاؤ مگر تم نہ مانے حق کی حکمرانی قائم کرنے کے تمہارے اس پاک جذبے نے تمہیں خلافت کے دعوے پر مجبور رکھا اور تم نتائج سے بےپرواہ ہو کر ان دنیا دار اور مفسد حکمرانوں کے خلاف ڈٹے رہے آخر کار تمہیں اس لرزہ خیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ تم بہت زیادہ روزے رکھنے والے بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر بہت ہی زیادہ روزے رکھا کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ پندرہ پندرہ دن تک مسلسل روزے سے رہا کرتے تھے جس کو طے روزے کہا جاتا ہے اور پوری پوری رات نوافل، تلاوت اور ذکر اللہ میں گزارا کرتے تھے قرابتداروں سے حسن سلوک کے معاملہ میں امتیازی شہرت رکھتے تھے حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس موقع پر حضرت ابن زبیر کے ان اوصاف کا ذکر اس لئے کیا کہ حجاج ان کو عدو اللہ (اللہ کا دشمن) اور ظالم کہا کرتا تھا اور نہ معلوم کیا کیا واہی تباہی بکا کرتا تھا لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر نے ضروری سمجھا کہ حضرت ابن زبیر کی وہ خوبیاں اور نیکیاں بیان کریں جن سے حجاج کو لغو وبے ہودہ باتوں کی تردید ہو اور عام لوگوں پر واضح ہوجائے کہ ابن زبیر کس پایہ کے عابد وزاہد اور بلند مرتبہ مسلمان تھے۔ اور ایک روایت لامۃ خیر کے الفاظ ہیں، یعنی اصل روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حجاج ابن یوسف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں میں واضح الفاظ کے ذریعہ اپنا یہ تاثر بیان کیا کہ جو گروہ عبداللہ ابن زبیر کو برا اور حق سے ہٹا ہوا سمجھتا ہے۔ دراصل خود وہی گروہ اپنی بد اعتقادی اور اپنے خیال فاسد کی بناء پر ایک برا اور بدتر گروہ ہے کہ تم جیسے شخص کو شریر اور فسادی لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ایک روایت میں یہاں ایک برا اور بدتر گروہ ہے کے بجائے یہ ہے کہ وہ کیا ہی اچھا گروہ ہے ان الفاظ میں بھی اسی تاثر کا اظہار مقصود ہے جو اصل روایت سے ظاہر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دوسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر نے گویا طنزوتعریض اور استہزاء کا اسلوب اختیار کیا جیسا کہ عام طور پر کسی برے اور فسادی شخص کی شرارت اور بدطینی پر چوٹ کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ واہ میاں تم بھی کیا خوب ہو آپس میں تفرقہ ڈلواتے ہو، تاہم زیادہ موزوں اور قریب الفہم وہی الفاظ ہیں جو اصل روایت میں مذکور ہیں۔ یہودیوں کے قربستان میں ڈلوادیا یعنی مکہ میں رہنے والے یہودی یا باہر سے آئے ہوئے اتفاقا مکہ میں مرجانے والے یہودی جس جگہ دفن کئے جاتے ہیں وہاں حجاج نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش ڈلوادی تھی۔ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کی تدفین جنت المعلاۃ میں عمل میں آئی تھی، کیونکہ یہ صورت حال ابتداء پیش آئی تھی کہ ان کی نعش یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوادی گئی تھی، لیکن پھر بعد میں ان کی نعش مبارک کو وہاں سے اٹھا کر جنت المعلاۃ میں دفن کیا گیا تھا، واضح رہے کہ اب تو بہت زمانہ سے وہ جگہ متعارف نہیں ہے جہاں یہودیوں کا قبرستان یا ان کی قبریں تھیں لیکن اس زمانہ میں ایسی کوئی جگہ ضرور تھی جو یہودیوں کی قبروں کے لئے مخصوص تھی اور اسی لئے حجاج نے حکم دیا تھا کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کو سولی سے اتار کریہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا جائے۔ لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو یہ ارونی سبتی کا مطلب ترجمہ ہے۔ سبتی دراصل ی متکلم کے ساتھ سبتیۃ کا تثنیہ ہے اور سبتیۃ اس پاپوش کو کہتے تھے جو دباغت دئیے ہوئے اور بال وغیرہ سے بالکل صاف نرم چمڑے کا بنا ہوتا تھا، اس زمانہ میں امراؤسلاطین اور عیش پسند لوگ اسی طرح کے جوتے پہنا کرتے تھے۔ دو کمر بند والی عورت ذات النطاقین کا ترجمہ ہے اور یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کا لقب تھا جو آنحضرت ﷺ نے ایک خاص واقعہ کی بناء پر مرحمت فرمایا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ ان کے مکان سے روانہ ہو رہے تھے تو حضرت اسماء نے ان دونوں کے لئے کچھ توشہ تیار کیا تھا۔ توشہ دان باندھنے کے لئے انہیں کوئی تسمہ وغیرہ نہیں ملا تو انہوں نے اپنا کمر بند پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے سے توشہ دان باندھا اور دوسرے ٹکڑے کو اپنی کمر پر لپیٹ لیا۔ دراصل نطاق کا ترجمہ کمربند کے بجائے کمر پٹہ کرنا زیادہ موزوں ہے، اس زمانہ میں جب کہ عرب عورتوں میں پاجامہ وشلوار جیسی چیز کا زیادہ رواج نہیں تھا، وہ اپنے تہ بند کے اوپر کمر پٹہ استعمال کیا کرتی تھیں تاکہ کام کاج کرتے وقت تہ بند کے کھلنے کا امکان نہ رہے، بہرحال اس موقع پر حضرت اسماء نے جس بےساختگی کے ساتھ اپنا کمرپٹہ کھول کر اس کے دو حصے کرکے گویا دو نطاق بنائے اس کی مناسبت سے آنحضرت ﷺ نے ان کو ذوالنطاقین کے لقب سے نوازا۔ اس اعتبار سے یہ لقب خود ان کے لئے توفخر کا موجب تھا کہ اپنی کوئی چیز آنحضرت ﷺ کے استعمال وکام میں آجائے اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے لیکن نادان حجاج ان کے اس لقب کو ان کی حقارت پر محمول کرتا تھا کہ ان کو ایک چیز کے ذریعہ ملقب کیا گیا جو عام طور پر گھروں کا کام کاج کرنے والی عورتوں اور باہر نکلنے والی خادماؤں کی علامت ہے۔ ہاں، اللہ کی قسم میں دو کمربند والی عورت ہوں ذوالنطاقین کا لقب حجاج کے خیال فاسد کے برخلاف حضرت اسماء کے لئے چونکہ تفاخر دارین کا موجب تھا اس لئے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس لقب کو فخر کے ساتھ قبول و تسلیم کیا اور حجاج کے سامنے اس کا برملا اظہار و اعتراف بھی کیا بلکہ اس کے بعد وہ وجہ بیان کی جس نے ان کو اس اعزاز تک پہنچایا۔ چناچہ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے اپنے ایک کمر بند کے جو دو کمر بند کرلئے تھے ان میں ایک کے ذریعہ تو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کا کھانا دسترخوان میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ لٹکا دیتی تھی، تاکہ جانوروں یعنی چوہے اور چیونٹی وغیرہ سے محفوظ رہے اور دوسرا کمر بند اس کام کے لئے تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی، بےپرواہ نہیں ہوسکتی کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی عورت کی تعریف وتحسین اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کا کام کاج پوری لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتی ہو، نطاق یعنی کمر بند یا کمر پٹہ کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ عورت اس اپنے تہبند پر باندھ لے تاکہ اس کو تہ بند کھل جانے کا خوف نہ ہو اور وہ اپنے گھر کا کام کاج پورے اطمینان سے کرسکے پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جو عورت اپنے گھر سے اور اپنے گھر کے کام کاج سے دلچسپی رکھتی ہو وہ نفاق سے بےنیاز نہیں ہوسکتی، دوسرا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں نطاق کا ایک استعمال اس مقصد کے لئے بھی ہوتا تھا کہ پیٹ بڑھنے نہ پائے۔ جیسا کہ ایک زمانے میں عورتوں میں اس کا رواج تھا کہ وہ اپنے پیٹ کی ہیت درست رکھنے کے لئے چمڑے کا کمر پٹہ استعمال کرتی تھیں بلکہ مالدار عورتیں تو سونے چاندی کے کام کا کمر پٹہ باندھتی تھیں، پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ کیا کہ دوسرا انطاق میں اس مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی اور یہ ایک ایسا مقصد تھا جس سے کوئی عورت بےپرواہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا یہ بہادر خاتون حضرت اسماء کی جرأت وبے با کی اور حق گوئی کا اثر تھا کہ ظالم حجاج جیسا شخص ان کی باتیں سن کر خاموش ہوگیا اور ان کا جواب دینے کی جرات نہ کرسکا، منقول ہے کہ حضرت اسماء اپنے بیٹے عبداللہ ابن زبیر کے سانحہ شہادت کے بیس دن بعد انتقال کر گئیں اس وقت ان کی عمر سو سال تھی اور ان کا ایک بھی دانت نہیں ٹوٹا تھا۔ علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو جو سلام کیا اس سے معلوم ہوا کہ میت کو سلام کرنا اور ایک سے زائد مرتبہ کرنا مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے سامنے ان خوبیوں اور اصاف کو بیان کرنا جن کے ذریعہ وہ مشہور تھا جائز ہے۔ اس حدیث سے حضرت عبداللہ ابن عمر کی بھی زبردست فضیلت وخصوصیت واضح ہوتی ہے کہ وہ حق بات کہنے سے باز نہ رہے باوجودیکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں میں جو کچھ کہوں گا اس کا ایک ایک لفظ حجاج تک پہنچے گا۔
Top