مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5937
وعن سلمان قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تبغضني فتفارق دينك قلت : يا رسول الله كيف أبغضك وبك هدانا الله ؟ قال : تبغض العرب فتبغضني . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب
اہل عرب سے دشمنی آنحضرت ﷺ سے دشمنی رکھنا ہے
اور حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے، مجھ سے دشمنی نہ رکھنا ورنہ تم اپنے دین سے جدا ہوجاؤ گے میں نے (یہ سنا تو حیرت سے) عرض کیا بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ ﷺ سے دشمنی تو دشمنی، دشمنی کا تصور بھی رکھوں! درآنحالیکہ (آپ ﷺ اللہ کے حبیب ہیں اپنی پوری امت کے محبوب ہیں اور آپ ﷺ کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اسلام کا اور اچھے کاموں کا) سیدھا راستہ دکھایا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم عرب سے دشمنی رکھوگے تو گویا مجھ سے دشمنی رکھوگے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم عام طور پر تمام اہل عرب سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھوگے تو چونکہ میں بھی عرب میں شامل ہوں اس لئے مجھ سے بھی تمہارا دشمنی رکھنا لازم ہوگا پس ایسی سے میں نے کہا کہ تم مجھ سے دشمنی نہ رکھنا، اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب سے بغض و عداوت رکھنے سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے تاکہ اتنی بڑی خرابی میں پڑنے کی نوبت نہ آئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان چونکہ عجمی اور فارسی النسل تھے اس لئے اس پرانی اور اصل وطنی نسبت کے تحت ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جایا کرتی ہوگی یا ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجاتی ہوگی جس سے تمام عرب یا کچھ عرب کے تئیں حقارت یا بےادبی کا اظہار ہوتا ہوگا، ورنہ جہاں تک حقیقی بغض و عداوت رکھنے کا تعلق ہے تو حضرت سلمان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عرب کے تئیں اس طرح کے جذبات رکھتے ہونگے تاہم ان کی اس طرح کی بات یا حرکت چونکہ صورۃ ًبغض و عداوت ہی کی مظہر ہوتی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کو متنبہ فرمایا کہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور اپنی زبان یا اپنے عمل سے کسی ایسی بات کا ارتکاب نہ کریں جس سے حقیقتہً نہ سہی صورۃ ہی عرب دشمنی کا اظہار ہوتا ہو کیونکہ اگر اس کا سلسلہ حققۃ بغض و عداوت رکھنے تک پہنچ گیا تو یہ چیز مجھ سے بغض و عداوت رکھنے کے مترادف ہوجائے گی۔
Top