مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5933
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : في ثقيف كذاب ومبير قال عبد الله بن عصمة يقال : الكذاب هو المختار بن أبي عبيد والمبير هو الحجاج بن يوسف وقال هشام بن حسان : أحصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ مائة ألف وعشرين ألفا . رواه الترمذي وروى مسلم في الصحيح حين قتل الحجاج عبد الله بن الزبير قالت أسماء : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا أن في ثقيف كذابا ومبيرا فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه . وسيجيء تمام الحديث في الفصل الثالث
بنوثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قبیلہ ثقیف میں انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد وہلاکو حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدوہلاکو سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم ) ہے۔ اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک ومہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی و بزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ ومعر کہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حجاج ابن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کو شیہد کردیا تو حضرت اسماء نے ( جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں) کہا ہم نے رسول کریم ﷺ نے بیان کیا ہے کردیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک بڑا مفسد وہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد وہلاکو کی بات، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد وہلاکو تو ہی ہم یہ پوری حدیث فصل میں آرہی ہے۔

تشریح
حجاج لغوی طور پر تو حاج کا اسم مبالغہ ہے جس کے معنی ہیں بحث کرنے والا حجت یعنی دلیل و ثبوت لانے والا حجاج ابن یوسف تاریخ اسلام کا مشہور ظالم شخص ہے جس نے ہزار ہاہزار اچھے اور نیک لوگوں کو جن میں صحابہ وتابعین بھی شامل ہیں، ناحق موت کے گھاٹ اتار، عبداللہ ابن زبیر کو شہید کیا اور ہزاروں بےخطا انسانوں کو قید وبند میں ڈالے رکھا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو اس نے کسی معرکہ آرائی اور جنگ وجدل کے بغیر یوں ہی پکڑ پکڑ کر جیل خانہ میں ڈالا اور پھر ان کو قتل کرادیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے جو لوگ جنگوں اور جھگڑوں میں مارے گئے ان کی تعداد علیحدہ ہے، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے قید خانہ سے پچاس ہزار آدمیوں کی ایک بڑی تعداد تو ایک ہی وقت میں نکلی تھی اور اس شخص کی سنگدلی کا اندازہ لگانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس نے قیدخانہ بنوا رکھا تھا اس میں چھت کا کوئی نام ونشان نہیں تھا اس کے تمام قیدی کھلے آسمان کے نیچے گرمی وسردی اور دھوپ وبارش کی صعوبتیں جھیلتے تھے، حجاج ابن یوسف ثقفی دراصل اموی امیر عبد الملک ابن مروان کا زبردست معتمدوبہی خواہ تھا اور امارت و سلطنت کے معاملات میں بڑا اثر ورسوخ رکھتا تھا عبد الملک ابن مروان نے اس کو عراق وخراسان کا حاکم اعلی (گورنر) بنا رکھا تھا اور عبداللہ ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاز کا والی بھی بنا، عبد الملک ابن مروان کے بعد ولید عبد الملک کے زمانہ امارت میں بھی عراق وخراسان پر اس کا اقتدار برقرار رہا، اس کے ظلم وستم کے واقعات اور وحشیانہ کاروائیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، وسط شوال ٩٥ ھ میں بعمر ٥٤ سال اس کا انتقال ہوا۔ مختار ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی کا بیٹا تھا مختار کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو آنحضرت ﷺ کی صحبت و روایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا، ابتدا میں یہ شخص علم وفضل اور نیکی وتقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض وعناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر و عقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہوگیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکروفریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کر امت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہوگئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے و خیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کرلینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہوگیا، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور پھر ١٤ رمضان ٢٧ ھ کو مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب ومبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہادرجہ کس مفسد وہلاکو کو پیدا ہوگا) کا مصداق ومحمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے۔
Top