مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5931
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الأزد أزد الله في الأرض يريد الناس أن يضعوهم ويأبى الله إلا أن يرفعهم وليأتين على الناس زمان يقول الرجل : يا ليت أبي كان أزديا ويا ليت أمي كانت أزدية رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
ازد، ازد اللہ ہیں
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو لقب کے ساتھ کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودل اوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔ کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلندہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ کاش ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے
Top